بھارت (جیوڈیسک) بھارت فرانس سے جدید ترین لڑاکا طیارے خریدنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے چین کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے لیے اور بہت کچھ کرنا پڑے گا۔
ہندو قوم پرست رہنما نریندر مودی کے سنہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک دنیا کے اس سب سے بڑے اسلحے کے خریدار ملک نے اپنی دفاعی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے سو ارب ڈالر کے نئے دفاعی سمجھوتے کیے ہیں۔
لیکن روسی ساخت کے مگ 21 طیاروں کو جنہیں ان کے ناقص ریکارڈ کے باعث ’فلائنگ کافن‘ یا ’اڑن تابوتوں‘ کا نام دیا گیا ہے انھیں تبدیل کرنے میں بھارتی فضائیہ کا پروگرام مشکلات کا شکار ہے۔
فرانس کی کمپنی داسو کے ٹیکنالوجی کے اعتبار میں اگلے دور کے رفال طیارے جن کو خریدنے کا معاہدہ ہوا ہے کسی حد تک یہ کمی پورا کردیں گے۔
دفاعی تجزیہ کار گلشن لوتھرا نے بتایا کہ ’یہ بھارتی فضائیہ کی صلاحیت بڑھا دیں گے۔ ہماری فضائیہ کے پاس پرانے جہاز ہیں جو ستر اور اسی کی دہائیوں میں حاصل کیے گئے اور پچیس تیس برس بعد فضائیہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بڑی چھلانگ لگا رہی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’رفال کی ٹیکنالوجی بہترین ہے اور ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ فضائیہ کا کہنا ہے کہ اسے کم از کم ان جدید طیاروں کے 42 سکوارڈن کی ضرورت ہے تاکہ وہ چین اور پاکستان کے ساتھ اپنی شمالی اور مغربی فضائی حدود کو محفوظ بنا سکے۔
اس وقت فضائیہ کے پاس بتیس سکوارڈن ہیں جن میں ہر سکوارڈن میں اٹھارہ طیارے ہیں۔ بھارتی پارلیمان میں بھارتی فضائیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے خبردار کیا تھا کہ سنہ دو ہزار بیس تک یہ سکوارڈن کم ہو کر پچیس رہ جائے گی جو بھارت کے درینہ دشمن پاکستان کے برابر ہے۔
اصل تشویش چین سے ہے۔ لوتھرا کا کہنا ہے کہ پاکستان پر زور چلایا جا سکتا ہے لیکن ہمارے لیے چین کو سنبھالنا ناممکن ہے۔ اگر چین پاکستان کی مدد کے لیے آتا ہے تو پھر ہم پھنس جائیں گے۔ چین اور بھارت کے درمیان 1962 میں ایک مختصر جنگ ہوئی تھی اور دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کی باقاعدہ نشاندہی نہیں ہو پائی ہے گو کہ دونوں ملکوں کے درمیان امن قائم رکھنے کے لیے کئی معاہدے ہو چکے ہیں۔
رفال طیاروں کی فروخت کا معاہدے جو جمعہ کو ہونے والے ہے اس کے تحت نئی دہلی کو دو مزید سکوارڈن مل جائیں گے لیکن ان کی فراہمی میں مزید تین برس لگ جائیں گے۔
بھارت اصل میں فرانس سے 126 رفال طیارے خریدنا چاہتا تھا لیکن طیاروں کی قیمت اور ان کی بھارت میں اسمبلی یا پرزے جوڑ کر بنانے کے معاملات پر پیچیدگیوں کے باعث طیاروں کی تعداد کم کر دی گئی۔ یہ طیارے اس وقت عراق اور شام میں بمباری کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یہ طیارے 3800 کلو میٹر یا 2360 میل تک مار کر سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان طیاروں کے حصول سے بھارتی فضائیہ کو پاکستان اور چین میں دور دور تک مار کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جائے گی۔ لیکن ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ رفال کی خریداری ایک بہت مہنگا سودا ہے۔ بھارت نے ان کی قیمت پر فرانس سے بہت سودی بازی کی اور ان کی قیمت کم کروا کے اب تقریباً نو ارب ڈالر میں خریدا جا رہا ہے۔
مرسیڈیز گاڑی خریدنے کی اسطاعت نہیں رکھتے بھارت کے وزیرِ دفاعی من موہر پریکر نے گزشتہ سال کہا تھا کہ 126 طیارے خریدنا بہت مہنگا پڑ رہا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’وہ باقی طیارے نہیں خریدے رہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میرے پاس بی ایم ڈبلیو یا مرسیڈیز ہو۔ لیکن میں یہ گاڑی نہیں لے سکتا کیونکہ میرے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے۔‘
نریندر مودی نے کہا تھا کہ وہ بھارت کی دنیا کے سب سے بڑے خریدار ہونے کی حیثیت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور اس دہائی کے اختتام تک ستر فیصد دفاعی ساز و سامان مقامی طور پر تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ان کی حکومت نے دفاعی صنعت میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے 49 فیصد کی شرط کو گزشتہ سال واپس لے لیا تھا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ رفال کی خریداری سے بچایا جانے والے پیسہ اب مقامی طور پر بھارتی ساخت کے تیجا جہازوں کی تیاری پر لگایا جائے گا۔
تیجا طیارے جن کے چند ایک پرزے درآمد کیے جائیں گے ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے وہ اپنی کلاس کے سب سے چھوٹے، ہلکے اور سپر سانک یا آواز سے تیز رفتار طیارے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا کا کہنا ہے 36 رفال طیاروں کی خریداری سے داسو کمپنی، بھارتی فضائیہ اور عوام کسی حد مطمئن ہو جائیں گے لیکن اس کی کوئی ’آپریشنل‘ توجیح نہیں بنتی۔
انھوں نے کہا کہ چھوٹے اور ہلکے طیاروں کا بھاری اور غیر معمولی طور پر مہنگے رفال جیسے دیو ہیکل طیارے متبادل نہیں ہو سکتے۔