نیویارک (جیوڈیسک) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مشرق وسطیٰ کے مسائل تقریروں میں غالب رہے۔
پچھلے سال جولائی میں چھ عالمی طاقتوں اور ایران نے ایران کے جوہری پروگرام کو سمیٹنے پر اتفاق کیا تھا۔ اقوام متحدہ میں ایرانی صدر نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ اس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے آگے آئے جو اقدامات سے متعلق جامع مشترکہ منصوبے یعنی JCPOA کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا تھاکہ امریکہ کی جانب سے پچھلے کئی مہینوں کے دوران JCPOA پر عمل درآمد نہ کیا جانا ایک غیر مناسب رویے کو ظاہر کرتا ہے جسے درست کیا جانا چاہیے۔
ایران کی جانب سے اس بارے میں مایوسی کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ غیر ملکی بینک اس کے ملک کے ساتھ لین دین کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔
بعد ازاں ایک نیوز کانفرنس میں روحانی نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی اس تجویز پر نکتہ چینی کی کہ شام میں انسانی ہمدوردی کی امداد پہنچانے اور اس تنازع کے کئی کرداروں کے درمیان اعتماد کی دوبارہ بحالی کے لیے وہاں تمام جنگی جہازوں کو فضاؤں میں جانے سے روک لیا جائے۔
نیوز کانفرنس میں انہوں نے کہا ‘ہمیں لازمی طور پر ان لوگوں تک امداد پہنچانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئےجنہیں اس کی ضرورت ہے, جس کا پروازیں روک دینے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اگر آپ پروازیں روک دیتے ہیں تو آپ دهشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں ، چاہے آپ اسے پسند کریں یا نہ کریں ‘۔
روحانی نے کہا کہ دهشت گرد اچھی طرح مسلح ہیں اور ان کے پاس صرف طیاروں کی کمی ہے ، اس لیے اگر شامی اور بین الاقوامی جنگی طیاروں کو اڈوں پر کھڑا کردیا جاتا ہے تواس سے دهشت گردوں کی مدد ہو گی ۔
اسرائیلی اور فلسطینی تنازعے کے سلسلے میں فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے خبردار کیا کہ اسرائیل کی جانب سے بستیوں کی تعمیر میں توسیع سے کسی دو ریاستی حل کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ یہ بستیاں ہر پہلو اور ہر اعتبار سے غیر قانونی ہیں ۔ اس لیے ہم ان بستیوں کے سلسلے میں سلامتی کونسل کی قرار داد پر عمل درآمد کے لئے اپنی ہر ممکن کوششیں جاری رکھیں گے۔ ہمیں توقع کہ کوئی اس پر ووٹ نہیں دے گا۔
لیکن اسرائیلی وزیراعظم بنجمن تین یاہونے اس کا دفاع کیا۔ انہوں نے کہا،’ اسرائیل سے اس کی عداوت کی تاریخ کے پیش نظر کیا کوئی واقعتاًً یہ یقین رکھتا ہے کہ اسرائیل اقوام متحدہ کو یہ تعین کرنے کی اجازت دے گا کہ ہماری سلامتی اور ہمارے انتہائی اہم اور بنیادی مفادات کیا ہیں۔ ہم اقوام متحدہ کی جانب سے اسرائیل پر شرائط مسلط کرنے کی کوئی بھی کوشش قبول نہیں کریں گے‘۔
اسی دوران عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان کی حکومت اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ میں پیش رفت کررہی ہے۔ ان کے الفاظ ۔ ’ ایک سال پہلے جب میں یہاں کھڑا تھا تو اس وقت عراق کا ایک بڑا علاقہ دهشت گرد گروپ داعش کے قبضے میں تھا۔ جب کہ آج ہم دوبارہ اسی جگہ پر آپ کے سامنے یہ واضح کرنے کے لیے کھڑے ہیں عراق کو آزاد کرایا جا رہا ہے اور عراقیوں کو اپنے اتحاد اور عزم مصمم کی بدولت اپنا زیادہ تر علاقہ آزاد کرانے میں کامیابی حاصل ہوتی رہی ہے ‘۔
آئندہ مہینوں میں شمالی شہر موصل کو داعش کے قبضے سے چھڑانے کے لیے ایک بڑے حملے کو توقع کی جا رہی ہے۔