تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری لٹیرا شوگر مافیا اربوں نہیں کھربوں روپے کما رہا ہے شوگر چونکہ ہر گھر کی اہم ضرورت ہے اس لیے شوگر مافیا 20 کروڑ پاکستانی عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے دراصل ہمارے ملک کے عوام کرپٹ گھسی پٹی لیڈر شپ کو ووٹ دے دے کر اس قدر بری طرح ان کے چنگل میں پھنس چکے ہیں کہ اب”نہ جائے ماندن ہے اور نہ پائے رفتن “کسی بھی صورت دنیا کے غلیظ ترین کافرانہ نظام سود کا علمبردارنو دولتیا سرمایہ دار جان نہیں چھوڑ رہا ۔بنکوں سے سود در سود قرضے لیکر پھر چینی کی قیمت اصل سے بھی دوگنا تگنا وصول کرتا ہے سپریم کورٹ حکم دے چکی کہ چالیس روپے کلوسے زیادہ قیمت پر چینی فروخت نہ کی جائے۔ مگر کون سے حکمران ہیں جو اس کا مکمل انتظام کریں۔
مرغ بٹیرے نہاریاں پائے کھدیں کھانے والوںکو اس کی فرصت کہاں انھیں تو اپنی اورعزیز واقارب کی دیہاڑی کروڑ کی لگنی چاہیے اور بیرون ملک خواہ پانامہ لیکس میں یا کسی دوسرے بنکوں میں روزانہ مال جمع ہونا چاہیے۔اگر عوام یہ سوچ لیں کہ”بھاڑ میں پڑے سونا جو کانوں کو کھائے”تو سبھی ٹی وی پر اپنی شکلیں بار بار دکھانے والے جغادری سیاستدانوں کا قلاوہ کبھی کا گردنوں سے اتار چکے ہوتے مگر ہر دفعہ کوئی نیا لٹیرا ٹھگ سیاستدان کا روپ دھارے ہوئے عوام کو الو بنا کر ووٹ اینٹھ کر ان کی گردنوں پر سوار ہوجاتا ہے۔
شوگر مافیا کن کن فراڈوں اور ہیرا پھیریوں کے ذریعے شوگر مل سے کم قیمت پر خرید کر دوگنے تگنے روپوں پر بیچنے کا انتظام کر لیتے ہیں؟ اس راز سے پردہ اٹھنا بھی بہت ضروری ہے ویسے بھی”اندھا ونڈے ریوڑیاں مڑ مڑ کے اپنیاں نوں “کے مصداق حکمران خواہ کوئی آئے جائے وہ بڑے کاروباروں کو تو اپنے ہی منہ بولوں سے باہر نہیں جانے دیتے ویسے بھی شوگر ملیں تقریباً سبھی مقتدر طبقات کے افراد،زرداری ،ترین اور شریف برادران اور ان کے عزیز واقارب کی ہی ہیں۔کرپٹ مل مالکان گنا خواہ کتنے ہی کم ریٹ پر خریدیں۔کسانوں کو رقوم کئی سال تک ادا نہ کریں تو ان کی کونسی ٹانگ کوئی توڑ سکتا ہے۔کچہری ا ن کی ذاتی خالہ اور تھانے ان کے مامے بن چکے ہیںکہ چو کھا مال انھیں ہر سال لگ ہی جاتا ہے کئی سالوں کی سی پی آرز (گنافروخت کی رسیدیں)کسان ابھی تک سنبھالے ہوئے ہے۔کہ شاید امسال انھیں رقوم مل جائیں گی۔مگر وہ صنعتکار ہی کیا ہو گا جوخون نہ چوسے اور ایسا نہ کرے گا تو اگلے سال پھر دوسری مل کیسے جنم لے گی۔
Sugar Mills
حرام نطفہ سے ہی حرامی بچہ جنم لیتا ہے اور حرام مال کمائو گے تو ہی مزید ڈھیروں حرام کمانے کے لیے نئی مل لگ سکے گی۔ پاکستان کے علاوہ شاید ہی کسی مسلمان یا سامراجی ملک میں صنعتکار حکومتی کرسیوں پر قابض ملے گا۔ہمارے ہاں یہ انوکھی کرپٹ مخلوق خود کو دودھ سے دھلی کہلوانے والے ہمارے ہی ملک پر براجمان ہیں۔اور انکے حکومتی ادوار میں ملیں ہر سال بچہ جنتی ہیں ۔کیونکہ چور ڈکیت ہمارے اندر ہی چھپے ہوئے ہیں اس لیے پکڑ لو پکڑ لو کی صدائیں صدا بہ صحرا ہی ہو کر رہ گئی ہیں پھر اگر سود در سود کے ذریعے قرضہ کی رقوم زیادہ بھی ہوجائیں تو بنکوں کا نظام تو ہمارے پروردہ چچائوں کا ہی ہے وہاں سے مکمل قرضے معاف کروالیے جاتے ہیں کہ مقتدر افراد ہی نے انھیں ایسا حکم بھیجنا ہوتا ہے اس طرح یہ گھنائونا گھن چکر مسلسل چل رہا ہے اور ستر سال سے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتے چلے جارہے ہیں سپریم کورٹ کے چینی بابت احکام ہو امیں اڑا ڈالے گئے اور عوام کو ذرابرابر ریلیف نہ مل سکا آخر کیوںویسے بھی درجنوںمرتبہ ماہرین معاشیات سے جمع تفر یق کروا کر دیکھ لیا ہے چینی کی ایکس مل قیمت 22روپے سے زائد نہیں بنتی۔
آجکل دائو دھوکا کا زمانہ ہے چینی ساٹھ سے ستر روپے فی کلو تک مہیا ہورہی ہے پھر یہ 38تا48روپے کی زائد قیمت والا سرمایہ کون ڈکار رہا ہے ۔آپ دو چار شوگر مافیائی لٹیرے بدمعاشوں کو ذرا بڑے شہر کے چوکوں پر الٹا اور سیدھا لٹکائیں اگلے ہی روز چینی کا ریٹ وہاں آجائے گا جہاں اصلاً ہونا چاہیے۔لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے دراصل ظاہراً نظر نہ آنے والا بھوت مافیا ہی شوگر مافیا ہے جو کہ وزارتوں ،سفارتو ں اور اس سے بھی بڑے دفاتر اور گھروں میں چھپا بیٹھا ہے غرضیکہ ان سبھی پرانی گھسی پٹی کہانیوںکا صرف اور صرف حل اور اختتام یہ ہے کہ شو گر ملوں میں موجود منتخب مزدور ٹریڈ یونینوں کو ملوں کا مکمل کنٹرول دے دیا جائے مالک کومنافع میںسے معقول معاوضہ ملے۔اور مزدورں کو بھی منافع کا حصہ دار بنایا جائے تو ہی ہم درست سمت میں سفر شروع کرسکیں گے۔
Interest
مزدور زیادہ منافع کے لالچ میں زیادہ محنت کریں گے اور سود خور صنعتکاروں کو اربوں کھربوں منافع نہیں ملے گا تو عوام کو قیمت خرید میں خودبخود ضرور ریلف مل سکے گا ۔اور کسان جسے کئی ساال سے گنے کی قیمتیں نہیں مل سکیں وہ بھی مستفید ہوکرڈوبی ہوئی رقوم حاصل کرلیں گے۔اگر ایک گھر کا چینی کا خرچ ماہانہ پانچ کلو ہے تو وہ سالانہ 60 کلو ہوا۔
اس طر 38×60یعنی 2280 روپے سالانہ لٹابیٹھا۔اگر چار کروڑ خاندان اندازاً ہیں تو 40000000×2280یعنی91200000000 (نو کھرب12ارب روپے) غریب عوام سے سالانہ شو گر مافیا چھین کر لے جاتا ہے ۔ان روپوں سے وہ اپنے حلقوں کے ووٹروں کو خرید کر بھی دو بارہ غریبوں کی گردنوں پر سوار رہ سکتے ہیں ۔آخر محکمہ فوڈ جو کہ گندم خریدنے کے بعد سارا سال فارغ رہتا ہے وہ پرانے وقتوں کے چینی ڈپوئوں سے چینی فروخت کریں تو درمیانی شوگر مافیا زیر زمین خود بخود مدفون ہوجائے گا۔
میری معروضات پر عمل در آمد کرنے پر صرف مقتدر طبقات اور حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے گی کہ پھر ان کے حواری موالی درباری کروڑوں کی دیہاڑیاں کہاں سے لگائیں گے جب تک اللہ اکبراللہ اکبر کے نعرے لگاتے مظلوم ومقہور طبقات کے لوگ تحریک کی صورت میں نہیں نکلتے مختلف کرپٹ سود خور مافیاز ہماری جان نہیں چھوڑیں گے۔ایرانی انقلاب اور افغانستان میں چند سال قبل طالبان کے قبضے جیسی تحریکوں میں بھی ہمارے لیے بہت سبق ہے۔جب ہر طرف کرپٹ لیڈر شپ اور خون چوسنے والی جو نکوں کی طرح کے مافیاز ہی نظر آئیں تو پھر خدائی حل ہی صحیح حل ہو گا۔اسی سے رحمت کی امیدوں کے طلبگار رہنا چاہیے۔