تحریر : محمد اشفاق راجا کشمیر کاز پر سیاستدان اختلافات بھلا کر وزیراعظم کے ہاتھ مضبوط کریں نواز شریف یو این میں مسئلہ کشمیر پوری قوت سے اٹھانے کیلئے پرعزم ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کا سلسلہ جاری ہے، پیلٹ گن کی فائرنگ سے 11 سالہ بچہ شہید ہوگیا۔ بھارتی مظالم کیخلاف آزادی مارچ کیا گیا۔ بھارتی فورسز نے شرکاء پر وحشیانہ تشدد کیا جس سے سینکڑوں زخمی ہوگئے جبکہ 60 کو گرفتار کرلیا گیا۔ مظاہرین نے اس موقع پر پاکستانی پرچم لہرائے۔ ہزاروں لوگوں نے کرفیو اور دیگر پابندیوںکو خاطر میں نہ لاتے ہوئے شہید بچے ناصر کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ بھارتی فورسز نے جنازہ کے شرکاء کے خلاف بھی طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا پابندیوں کے باوجود ہزاروں لوگ حریت رہنمائوں کی آزادی مارچ کال پر باہر نکلے۔ بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ان پر گولیوں’ پیلٹ گنوں اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ دریں اثناء وزیراعظم محمد نوازشریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے نیو یارک پہنچ گئے وزیراعظم عالمی رہنمائوں سے ملاقاتوں میں انہیں کشمیر میں ہونیوالے بھارتی مظالم سے آگاہ کریں گے۔
وزیراعظم 21 ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کرینگے جس میں وہ اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور پر پاکستان کے نقطہ نظر کی وضاحت کرینگے۔ خطاب میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر خصوصی روشنی ڈالی جائیگی۔ علاوہ ازیں امریکہ نے واضح کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر امریکی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں ا?ئی’ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کو ہی بات کرنی ہے، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے واشنگٹن میں میڈیا بریفنگ کے دوران کہا ہماری خواہش ہے کہ پاکستان اور بھارت دوطرفہ طریقے سے مسئلے کا حل نکالیں۔ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے بھارت سے ملکر کام کریں گے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ہیومین رائٹس کمشن میں پاکستان کی مندوب تہمینہ جنجوعہ نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ بھارتی مظالم کی تحقیقات کیلئے اپنا مشن مقبوضہ کشمیر بھیجے۔ انکا کہنا تھا کہ بھارت جان بوجھ کر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی کا رنگ دے رہا ہے، نہتے کشمیریوں پر بھارتی مظالم تشویش کا باعث ہیں۔ تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ بھارت نے اپنی پارلیمنٹ میں ایک ایسے قانون کیلئے بل پیش کیا ہے جس کے مطابق جو کشمیر کو متنازع قرار دے وہ سزا کا مستحق ہوگا۔
رواں سال جنرل اسمبلی کا اجلاس بھارتی مقبوضہ کشمیر میں غاصب بھارتی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور معصوم نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کے حوالے سے منعقد کیا جا رہا ہے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بین الاقوامی توجہ کا مرکز ہیں’ خصوصاً وزیر اعظم کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو لکھے گئے دو خطوط کے بعد مسئلہ کشمیر خصوصی عالمی توجہ کا مرکز ہے۔ ان خطوط میں وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنانے اور مقبوضہ وادی میں بھارتی افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خاتمہ کا مطالبہ کیا تھا۔
Nawaz Sharif Speech
عالمی برادری کی نظریں وزیر اعظم نواز شریف کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب پر لگی ہیں، پاکستانی بھی اپنے وزیراعظم سے جرآت مندانہ خطاب کی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں جس میں بھارت کی پاکستان کے خلاف سازشوں سے پردہ اٹھایا جائے، بھارتی بربریت بے نقاب کی جائے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو اجاگر کیا جائے۔ کچھ سالوں سے پاکستان کی خارجہ پالیسی مایوس کن رہی ہے۔ ہم اپنے ”دوستوں” تک کو اپنے موقف کا قائل نہ کر سکے۔ امریکہ پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی قرار دیتا ہے اسے افغانستان میں اپنی موجودگی کیلئے ابھی اسے پاکستان کی ضرورت ہے۔ مگر اس کی طرف سے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے غلط موقف کی تائید کی جا رہی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کہہ رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر اس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں ا?ئی، پاکستان اور بھارت مل کر اس کا حل نکالیں۔ جب دونوں ممالک کے نکتہ نظر میں کوئی مطابقت اور یکسانیت نہیں، بھارت کشمیر ایشو پر بات کرنے پر تیار نہیں تو کیسے مل بیٹھ کر یہ تنازع طے ہو سکتا ہے۔ اوباما اور ان سے قبل بل کلنٹن کے بیانات کو لے لیں انہوں نے مسئلہ کشمیر حل کرانے کے اعلانات کئے تھے۔ اب جان کربی کہتے ہیں کہ امریکی موقف میں تبدیلی نہیں ا?ئی۔
پاکستان کے محکمہ خارجہ کے ذمہ داروں کی کارکردگی کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایسے موقع پر جب وزیراعظم نواز شریف اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پوری تیاری اور کمٹمنٹ کے ساتھ اٹھانے کیلئے کمر بستہ ہیں، امریکہ نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے بھارت سے مل کر کام کریں گے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کو دہشتگردی قرار دیتا ہے امریکہ کیا اس کے خاتمے کیلئے بھارت سے مل کر کام کریگا؟ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشتگردی سے بچوں اور خواتین سمیت ایک لاکھ سے زائد افراد شہید ہوچکے معذور اور مفلوج ہونیوالوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ خواتین کی حرمت محفوظ ہے نہ کہیں چادر اور چار دیواری کا تحفظ ہے۔ خود اقوام متحدہ کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی مقبوضہ وادی میں ہوتی ہے ہم امریکہ کو کیوں قائل نہیں کر سکے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشتگردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس کی طرف سے عین ایک اہم ایونٹ کے موقع پر بھارت کی حمایت کو کیا معنی پہنائے جائیں گے۔
بھارت نے طویل عرصے تک پاکستان کو لاحاصل مذاکرات میں الجھائے رکھا۔ وہ مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ مانتا تھا اب اسے اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ مودی تو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی دعوے کر رہے ہیں۔ ان دنوں بھارت نے پارلیمنٹ میں ایسے قانون کیلئے بل پیش کیا ہے جس کے تحت کشمیر کو متنازع قرار دینے والا بھی سزا کا مستحق ہو گا۔ گویا یہ حریت پسندوں کے خلاف ظلم و جبر کا ایک اور ہتھیار ہے۔ امید ہے وزیراعظم نواز شریف اس مجوزہ قانون کے ساتھ ساتھ انسانیت سوز مقبوضہ وادی میں لاگو ٹاڈا اور پوٹا قوانین کے بارے میں بھی عالمی فورم پر بھرپور انداز میں آواز اٹھائیں گے۔
Nawaz Sharif
وزیراعظم نواز شریف نے نیویارک کیلئے روانگی سے قبل کشمیری اور عسکری قیادت سے ملاقاتوں کے دوران بامقصد مشاورت کی۔ اس حوالے سے وزیراعظم کو عوامی اعتماد بھی حاصل ہے۔ مسئلہ کشمیر اٹھانے کیلئے عالمی سطح پر فضا کافی سازگار ہے۔ ایسے میں پاکستان کے اندر ہر پارٹی کی طرف سے وزیراعظم کے ہاتھ مضبوط کئے جانے چاہئیں مگر سیاسی ہلچل قوم کے مضبوط اتحاد کی غمازی نہیں کرتی۔ تحریک انصاف رائیونڈ کی طرف مارچ کی تیاریاں کر رہی ہے۔ ن لیگ نے ایک ڈنڈا فورس بنا دی، یہ سیاست میں غیر سنجیدگی کا مظہر اور ن لیگ کی بدنامی کا باعث بھی ہے۔ ن لیگ کے قائدین ایسے فورس کی حوصلہ افزائی کے بجائے شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری دکھانے والوں کو حد سے تجاوز نہ کرنے دیں، ن لیگ کی ڈنڈا فورس سیاسی ماحول کو مکدر کر رہی ہے جو کسی طور سیاست، جمہوریت اور خود ن لیگ کے حق میں نہیں۔
اس فورس کے جواب میں تحریک انصاف کی طرف سے بھی ایسی ہی حماقت کی گئی ہے۔ مہمند ایجنسی میں چالیس افراد دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ کر شہید ہو گئے۔ اتنے ہی زخمی بھی ہیں ایسے موقع پر افسوس کا اظہار کیا جانا اور سوگ منایا جانا چاہیے تھا۔ تمام پارٹیوں کو مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے حوالے سے وزیراعظم کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے، جہاں ڈنڈے اور گنڈاسے اٹھائے جا رہے ہیں۔ جان دینے اور لینے کا شوق ہے تو ایل او سی کراس کر کے مقبوضہ وادی میں چلے جائیں۔
ادھر طاہر القادری کو دیکھیں ان کو ”اپنی تحریک” دنیا کے سامنے لانے کا کونسا موقع سوجھا ہے اور پھر اعلانات ملاحظہ فرمائیں کہتے ہیں وزیراعظم کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں کشمیر کا مقدمہ کس منہ سے لڑیں گے۔ ان کو کم از کم ایسے موقع پر تو اپنی زبان کنٹرول میں رکھنی چاہیے۔ جب پاکستان کی طرف سے کشمیر ایشو پوری قوت سے اٹھایا جا رہا ہے۔ قوم کے ہر فرد اور ہر پارٹی کو اختلافات بھلا کرآج کشمیر ایشو پر وزیراعظم کے شانہ بشانہ ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سے ہر آواز کشمیر کاز کیلئے اٹھنی چاہئیے اگر کسی کو ایسا بوجوہ گوارہ نہیں تو کم از کم مخالفت میں بات کرنے کے بجائے خاموش ہی رہے۔