تحریر : شاہد مشتاق گندگی گی کے ڈھیر، گٹر سے ابلتا گندا پانی، چھوٹے چھوٹے غلیظ پانی کے جوہڑ، بدبو کے اٹھتے ببھوکے، تپتی دوپہر میں دیر دیر تک کھڑے رہ کر خیراتی تنظیموں کی طرف سے پچھلے ڈھائی تین ماہ سے ایک ہی طرح کا کھانا وصول کرتے اداس چہرے،خالی جیبیں،کبھی پانی بند کردیاجاتاہے،توکبھی بجلی، گھر فون کرنے کے لئیے موبائل میں بیلنس نہیں، کئی کئی ہفتے گھربات نہیں ہوپاتی، پچھلے نو ماہ سے شدیدفکر،پریشانی، بیروزگاری،فاقہ کشی، گھر کے مسائل سے دلگرفتہ کھوئے کھوئیانسان، یہ فلسطین، شام، یا افغان پناہ گزینوں کے کسی کیمپ کی داستان نہیں۔ بلکہ یہ حقیقت ہمارے برادر اسلامی سعودی عرب میں محصورین کے کیمپوں کا حال ہے، جن کا تاحال کوئی ذمہ دار بننے کے لیے تیارنہیں۔ 2016کا سال اختتام کے قریب آپہنچا مگر ان بیچاروں نے اپنے گھر ایک بھی تنخواہ نہیں بھیجی، نہ یہ خود اپنے پیاروں کے پاس پہنچے۔
محصورین کے کیمپوں میں کئی ماہ تک کسی قسم کی میڈیکل کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ، سے بیشمار آدمی کئی پیچیدہ بیماریوں کا شکار ہوئے۔ تین ہفتے قبل جدہ میں سعودی اوجر کے کیمپ میں پراسرار طریقیسے فوت ہونے والے محمد اسماعیل خان کی میت ابھی تک اپنیورثائ4 کے پاس پاکستان منتقل نہیں ہوسکی۔ پورا سال مسلسل ذہنی دباو میں رہنیکی وجہ سے یہ لوگ آہستہ آہستہ ذہنی امراض کاشکار بنتے جارہے ہیں حکومتی دباو کی وجہ سے جہاں اب کچھ کمپنیوں نے اپنے ورکرز کو انکے واجبات ادا کرکہ اپنے ممالک بھیجنا شروع کردیا ہے۔ وہیں کچھ کمپنیاں اب بھی اپنے ورکرز کو نہ تو انکے واجبات ادا کررہی ہیں نہ ہی وطن واپس بھیجنے کا کوئی انتظام۔ کچھ کمپنیاں پاکستان بھیجنے کے لئے الٹا انہی بیچاروں سے پانچ پانچ سو ریال طلب کررہی ہیں۔
سب سے افسوس ناک کردار ہمارے سفارت خانے کا ہے۔جو میڈیائ4 میں بیان بازی کے علاوہ کچھ نہیں کررہا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اپنیواجبات کی ادائیگی کے لئیے کوئی بھی اپنے اپنے سفارت خانے پہ اعتماد کا اظہار نہیں کررہا۔ متاثرین کی بددعاوں کا بیشتر حصہ اپنے انہی سفارکاروں کے لیے ہوتاہے۔ جدہ میں موجود پاکستانی ایمبیسی کے ملازمین اپنے ہی ہم وطنوں سے انکا کام کرنے کی قیمت وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے ذیادہ ستم کا شکار سعودی اوجر کے ملازمین ہیں، جنہیں کسی قسم کی درست راہنمائی تو درکنار کبھی جھوٹی تسلی بھی نہیں دی گئی، اور بڑی کمپنیوں میں اب صرف یہی ایک ہے،جس کے ملازمین کو نوماہ کی تنخواہ اور ہر قسم کے بینیفٹ اور بونس، کے بغیر پاکستان بھیجنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
Rafiq Hariri
واضح رہے کہ سعودی اوجر لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری کے بیٹے،اور سعودی شاہی خاندان کے بھانجے، لبنان کی معروف سیاسی شخصیت سعد حریری کی ملکیت ہے۔ سعودی حکومت نے اس کمپنی کے تیس ارب ریال ادا کرنے ہیں، جبکہ سارے ملازمین کیکل بقایہ جات صرف سات ارب ریال بنتے ہیں۔ اس ساریمعاملیمیں کمپنی مالکان کی خاموشی،سعودی حکومت کی عدم توجہی، اورحکومت پاکستان کی اپنے شہریوں کے لئیے بے حسی بہت سارے سوالات اٹھاتی ہے۔
پاکستانی ایمبیسی، اور سعودی لیبرکورٹ کا پہلے دن سے بغیر پیسے لئیے پاکستان بھیجنے پہ اصرار کرنا، آخرکس کے فائدے میں ہے؟ جبکہ فرانس کا سفارتخانہ اپنے شہریوں کو تمام واجبات اسی کمپنی سے سعودی حکومت کے زریعے دلوا چکا ہے نوماہ کی بیکاری، مسلسل پریشانی،اور ذہنی دباو، نیان متاثرین کو توڑ کررکھ دیا ہے۔ اب یہ پریشان حال لوگ جو ایک بہتر مسقتبل کے لئیے سعودی عرب گئے تھے، تنگ آچکے ہیں،خالی ہاتھ ہی سہی مگر اب یہ اپنے بیوی، بچوں میں اپنے ملک لوٹنا چاہتے ہیں۔
مگر وطن لوٹنا ابھی بھی اتنا آسان نہیں، قریباََ سبھی کے اقامے تجدید کرنا ہونگے،اس کے بعد خروج،اورٹکٹس،کا بندوبست لگتا یہی ہے کہ یہ سارے معاملات ہوتے ہوتے شاید دوتین ماہ مزید لگ جائیں، جو نا صرف متاثرین کے لئیے مزید اذیت کا باعث بنیں گے،بلکہ وطن میں موجودانکے بیوی بچوں اورماں باپ کیلئییبھی مزید بہت سارے معاشی،معاشرتی،اورذہنی مسائل کی وجہ بنیں گے۔