ایم کیو ایم لندن بمقابلہ ایم کیو ایم پاکستان

MQM London

MQM London

تحریر : سید توقیر زیدی
قانون قدرت ہے کہ انسانوں میں دن ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں بدھ کے روز جو قرارداد منظور ہوئی تھوڑا عرصہ پہلے اس کا تصور بھی محال تھا، 22 اگست سے اب تک ایک مہینہ ہی گزرا ہے اور پلوں کے نیچے سے اتنا پانی بہہ گیا ہے کہ کہیں کہیں سیلاب کی کیفیت بھی ہے۔ 22 اگست کی تقریر کے بعدفاروق ستار نے اپنے آپ کو تدریجاً لندن سے الگ کر لیا تھا اور تقریر سے لا تعلقی ظاہر کر دی تھی، پھر چند روز بعد ایم کیو ایم پاکستان بن گئی، اب ایم کیو ایم لندن وجود میں آ گئی ہے کیونکہ ندیم نصرت کا کہنا ہے ”الطاف حسین ایم کیو ایم ہے” پاک سر زمین پارٹی پہلے سے بن چکی ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ بھی ہے گویا اب تک ایم کیو ایم سے ٹوٹ کر چار دھڑے بن چکے۔ جن لوگوں کا یہ خیا ل تھا کہ ایم کیو ایم دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح دھڑے بندیوں کا شکار نہیں ہو گی وہ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح دھڑے وجود میں آ گئے ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان نے ندیم نصرت ، واسیع جلیل وغیرہ کو ایم کیو ایم سے نکالا تھا جس کے جواب میں فاروق ستار اور ان کے بعض ساتھیوں کو ایم کیو ایم سے نکال دیا گیا۔ یوں ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کے باقاعدہ دھڑے وجود میں آ گے ہیں جو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں لیکن کراچی میں سیاست کرنے اور لندن میں سیاسی مزے لوٹنے میں جو بنیادی فرق ہے وہ یہ ہے کہ وہاں ایم کیو ایم کو کسی رینجرز کا دباؤ نہیں، وہاں کوئی سندھ حکومت بھی نہیں، فوج بھی نہیں، کوئی راؤ انوار نہیں، جو خواجہ اظہار کو گرفتار کر لے اور خود معطل ہوجائے

۔ یہ ساری حقیقتیں پاکستانی سیاست میں ہیں، اس لئے اگر ایم کیو ایم لندن کسی کو نکال دیتی ہے یا کسی کو اپنی پارٹی کا حصہ بنا لیتی ہے تو برطانوی حکومت اور برطانوی اداروں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ، آپ برطانیہ میں بیٹھ کر دوسرے ملکوں اور ان کے رہنماؤں کو گالیاں دیتے رہیں، برطانیہ اس سے تعرض نہیں کر ے گا لیکن اگر آپ اس طرح کی ایک تقریر برطانوی حکومت کے بارے میں بھی کر دیں جس طرح 22 اگست کو ہوئی تو پھر برطانیہ میں اس ٹھاٹھ سے رہنا آسان نہیں رہے گا۔

MQM

MQM

ایک فرق اور بھی ہے یہاں کراچی میں ہزاروں قتل ہوگئے، 12 مئی جیسا واقعہ پیش آگیا۔ وکلائ کو زندہ جلا دیا گیا۔ بلدیہ ٹاؤن جیسا سانحہ ہوگیا، اس سے بھی پہلے محترمہ بینظیر بھٹو کی پاکستان آمد پر ان کے جلوس میں کارساز (شاہراہِ فیصل) پر اندوہناک حادثہ ہوگیا۔ ڈیڑھ سو سے زائد لوگ مارے گئے، درجنوں دوسرے واقعات میں انسانی خون پانی کی طرح بہتا رہا لیکن بیشتر صورتوں میں یہ خون خاک نشیناں، رزق خاک ہی بن کر رہ گیا۔ برطانیہ میں ایک قتل ہوا چھ سال ہوگئے یہ اب تک رزق خاک نہیں ہوسکا اور کچھ بعید نہیں یہی خون کسی وقت سر چڑھ کر بولنا شروع کر دے۔

فی الحال تو لگتا ہے اس میں اطمینان کے کئی پہلو موجود ہیں، لیکن کیا معلوم یہ خون کب بول پڑے۔ تو خیر ہم بات کر رہے تھے ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کی، اول الذکر کے رہنما لندن میں آسودہ زندگی گزار رہے ہیں، آسودگی کے لئے سارے وسائل کراچی سے مہیا ہو جاتے تھے اب بھی سپلائی لائن کا سلسلہ پوری طرح منقطع نہیں ہوا، دولت کی فراوانی کا یہ عالم تھا کہ لکڑی کی دیواروں میں چھپا کر رکھنا پڑتی تھی، اس دولت فراواں سے سیاست کا کھیل آرام سے کھیلا جاتا تھا۔

رات گئے کسی کے گھر پر دستک دے کر گرفتاری کا کوئی خدشہ نہ تھا۔ لندن کی سیاست میں موجیں ہی موجیں ہیں جبکہ کراچی میں سیاست آزمائشوں سے مملو ہے، آزمائشیں بھی ایسی جو اکثر اوقات زلف یار کی طرح دراز ہو جاتی ہیں، اب وہ وقت بھی نہیں کہ سرکاری دفاتر میں سیاسی جماعت کا دفتر بنا لیا اور کسی نے توجہ نہ دی بلکہ کان لپیٹ کر قریب سے گزر گئے۔ اب تو نائن زیرو بھی بند ہے اور سرکاری زمینوں پر ناجائز بنے ہوئے سینکڑوں دفاتر بھی ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔بی این پی کے مطابق فاروق ستار نے کہا تھا جب بنے تھے اس وقت کیوں نہ گرائے گئے، اس کا جواب ایک بار خروشچیف نے دیا تھا جب وہ سٹالن کے عہد کو ہدف تنقید بنا رہے تھے تو حاضرین میں سے آواز آئی کہ اس وقت آپ کیوں خاموش تھے۔

Farooq Sattar

Farooq Sattar

خروشچیف نے تقریر سے نگاہیں اٹھا کر عینک ایک طرف رکھ کر پوچھا کسی نے کچھ ارشاد کیا، کوئی جواب نہ آیا تو کہا میں بھی اس لئے چپ رہتا تھا۔ ایم کیو ایم لندن کے رہنما کہتے ہیں کہ فاروق ستار استعفے دے کر الیکشن لڑیں تو انہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا، لیکن فاروق ستار نے طے کیا ہے کہ وہ استعفے نہیں دیں گے، ان کے ارکان جہاں جہاں بیٹھے ہیں حسب معمول بیٹھے رہیں گے۔

اس لحاظ سے پاک سرزمین پارٹی میں جانے والے خسارے میں رہے، جنہوں نے نشستیں چھوڑیں تو ان پر ایم کیو ایم نے دوبارہ اپنے بندے منتخب کرالئے۔ مصطفی کمال کا کہنا ہے کہ فاروق ستار استعفا دے کر آئیں تو انہیں بھی سر آنکھوں پر بٹھایا جائیگا، لیکن جس طرح ایم کیو ایم کا پھل فاروق ستار کی جھولی میں آگرا ہے، انہیں کیا پڑی ہے وہ اسے پھینک کر پاک سرزمین پارٹی میں جائیں جسے ابھی بہت عرصے تک جدوجہد کرنا ہے۔ بہرحال یہ تو واضح ہوگیا کہ اب لندن کا راستہ الگ ہے اور کراچی کا الگ۔ عین ممکن ہے کراچی میں رہ کر بھی کچھ لوگ لندن کا دم بھرتے رہیں لیکن ان کی تعداد بہرحال کم ہوگی۔ ایم کیو ایم پاکستان فی الحال فاروق ستار کی قیادت میں چلتی رہے گی۔

Syed Tauqeer Zaidi

Syed Tauqeer Zaidi

تحریر : سید توقیر زیدی