تحریر : سید توقیر زیدی بھارتی آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سمیت آرمی کمانڈروں نے وزیراعظم نریندر مودی کو پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی سے باز رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ آرمی چیف کا کہنا ہے کہ کنٹرول لائن پر حملے کی صورت میں ہمارا ہی نقصان ہو گا۔ دو تین دن سے بھارتی میڈیا یہ بڑھک مار رہا تھا کہ بھارت، پاکستان پر حملہ (سرجیکل سٹرائیک) کر سکتا ہے اور فوج اس کی تیاری کر رہی ہے، جس کا پاک فوج کی جانب سے یہ کھلا اور واضح جواب دیا گیا کہ کسی بھی قسم کی بھارتی جارحیت کا مْنہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
پاک فوج کے اِس اعلان کے بعد بھارتی وزیراعظم کی صدارت میں اجلاس ہوا، جس میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ، وزیر دفاع منوہر پاریکر، قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اور بھارتی فوج کے سربراہ جنرل دلبیر سنگھ سمیت اہم حکام شریک ہوئے۔ اجلاس میں وزیراعظم نے فوجی حکام سے پاکستان کے خلاف جارحیت کے آپشن مانگے، اس پر جنرل دلبیر سنگھ نے کہا کہ پاکستان نے کنٹرول لائن پر دفاعی انتظامات مزید مضبوط بنا لئے ہیں۔ کنٹرول لائن پر پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا خیال دِل سے نکال دینا ہی بہتر ہو گا۔ جنرل دلبیر سنگھ نے اجلاس میں بتایا کہ انہوں نے فیلڈ کمانڈروں سے ملاقاتیں کیں اور خود بھی کنٹرول لائن کا جائزہ لیا ہے کوئی بھی ایڈونچر خود بھارت کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔اْدھر بہار میں بھارت کی اہم سیاسی جماعت راشٹریہ جنتا دَل کے سربراہ اور سابق مرکزی وزیر لالو پرشاد یادیو نے کہا ہے کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس ایسے ہتھیار ہیں، جو بھارت کے پاس نہیں۔
اْڑی کے مقام پر بھارتی فوجی کیمپ پر حملے کے بعد سے بھارتی میڈیا نے جنگی ہسٹریا پیدا کرنے کی کوشش کی اور بعض صورتوں میں اب تک کر رہا ہے۔ اب کہیں کہیں اس کے غبارے سے بھی ہوا نکلنا شروع ہو گئی ہے۔جو اخبارات اپنی حکومت کو پاکستان پر حملے کے مشورے دے رہے تھے اب انہیں بھی زمینی حقیقتوں کا ادراک ہو رہا ہے، انگریزی اخبار”ہندوستان ٹائمز” نے اپنے ایک مضمون میں کہا تھا کہ بھارتی سپیشل فورسز کنٹرول لائن کے پار کارروائی کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔ اب اس اخبار نے گزشتہ روز کہا ہے کہ پاکستان کے اندر کسی قسم کا حملہ آسان نہ ہو گا اور ایسے میں صورتِ حال مکمل طور پر قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ ایک اور اخبار ”انڈین ایکسپریس” نے بھی چند روز قبل لکھا تھا کہ بھارتی فوج کی شمالی کمان نے پاکستانی فوج کی اْن چوکیوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے،جو بھارت کے خیال میں اْڑی سیکٹر میں حملے میں مددگار ثابت ہوئی ہیں، لیکن گزشتہ روز یہ اخبار بھی ہوش کے ناخن لینے پر مجبور ہْوا اور اْسے احساس ہو گیا کہ بھارتی فوج کی تو صلاحیت ہی اتنی نہیں ہے کہ وہ پاکستان پر حملہ کر سکے اور اْسے جواب میں سخت ردِعمل کا سامنا نہ ہو، مودی کی حکومت پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کا جو خواب دیکھ رہی تھی وہ بھی منتشر ہو گیا ہے۔
Uri Sector Attack
اب بھارت کی منصوبہ بندی یہ ہے کہ وزیر خارجہ سشما سوراج جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں اْڑی حملے کا راگ الاپیں گی۔ بھارت کو جو بات سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ پورا خطہ دہشت گردی کا شکارہے اور نان سٹیٹ ایکٹرز مختلف ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں، پاکستان خود اس عفریت کا سب سے زیادہ شکار ہے،افغانستان میں جن لوگوں نے پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں وہ وہاں سے آ کر پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں یہاں اْن کے سہولت کار بھی پکڑے گئے ہیں اور افغانستان سے جاری ہونے والی ٹیلی فون سِموں کا بھی سراغ ملا ہے، جن کے ذریعے دہشت گردوں کی افغانستان سے مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔
پاکستان نے یہ مسئلہ افغانستان سے اٹھایا، لیکن بدقسمتی سے ایسے عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، بلکہ بھارت کے ایما پر افغانستان بھی پاکستان کے خلاف الزام تراشی کی مہم چلائے ہوئے ہے۔ دہشت گردی سے پاکستان، افغانستان اور بھارت، تینوں مْلک متاثر ہیں اس لحاظ سے تینوں ممالک کا دْکھ مشترک ہے، لیکن اس کا مقابلہ مل کر کرنے کی بجائے یہ باہمی الزام تراشی سے باہر نہیں نکل پا رہے، حالانکہ بہتر حل یہ تھا کہ تینوں ممالک کے نمائندے مل بیٹھ کر اِس کا حل تلاش کرتے اور جس نتیجے پر پہنچتے اْس کا مل کر کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈتے، لیکن بھارت کے ہاں جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو وہ وقت ضائع کئے بغیر الزام پاکستان پر دھرتا ہے۔
البتہ ثبوت فراہم نہیں کرتا یا پھر اِس سلسلے میں انتہائی مضحکہ خیز رویہ اختیار کرتا ہے جیسا کہ اْڑی واقعہ کے بعد کہا گیا کہ خوراک کے ایسے ڈبے ملے ہیں، جو پاکستان میں تیار ہوئے ہیں یا پھر اسلحہ پاکستان ساختہ ہے۔ اس الزام میں تفنن طبع کا سامان تو کافی ہے، لیکن اس سے الزام کی صحت ثابت نہیں ہوتی،فرض کریں کہ پاکستان نے کوئی مسلح افراد بھیجے تھے تو انہیں پاکستان کا بنا ہوا اسلحہ دینا ہی ضروری تھا؟ اور کیا اْن کے لئے کسی دوسرے ملک کا اسلحہ میسر نہ تھا۔
Narendra Modi
بھارت کو چاہئے کہ شیخ چلی کے انداز میں منصوبہ سازی کی بجائے پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے مسئلے کا کوئی حل تلاش کرے، بلوچستان میں تخریب کاری کا خناس اپنے ذہن سے نکال دے اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کراچی کے حالات کو خراب کرنے سے باز رہے۔ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں بہت زیادہ نقصان اْٹھا چکا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ ہمسایہ ممالک میں امن رہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں بھی پاکستان ہی کر رہا ہے۔
کشمیر پر مذاکرات کے لئے پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نے دعوت دینے میں پہل کی تھی،لیکن بھارت نے اس سب کچھ کو نظر انداز کر کے الزام تراشی کی روش اختیار کئے رکھی اور اب تو جنگ کی باتیں تک شروع کر دیں۔ اس سے خطے کا امن تباہ ہو جائے گا اور بھارت کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ یہ بات پلے نہ باندھی گئی تو نقصان ہو گا۔ بھارت اپنے آرمی چیف کی نصیحت پر ہی کان دھر لے تو اچھا ہے۔