آسان شکار؟

Children

Children

تحریر: ممتاز ملک
پچھلے دنوں ایک دوست سے بہت ہی تکلیف دہ واقعہ اسکی کسی جاننے والی خاتون کا سننے کا ملا ، جو آج کل کے پرآشوب اور بے راہ رو زمانے میں ہمیں آئے دن سننے کو ملنے والے واقعات ہی میں سے ایک ہے اس میں وہ لڑکی پانچ برس کی عمر میں جوائنٹ فیملی میں رہتی تھی . بھائیوں کے نام نہاد اتفاق میں انہیں شاید یاد ہی نہیں رہا کہ ان کے بچے انکے کہنے سے بھائی بہن نہیں بن جائیں گے نہ ہی ان کی بیویاں ایک دوسرے کے بھائیوں کی محرم بن جائیں گی . یہ سب اپنے بچے گھر کے ایک بھائی کے بیس سالہ لڑکے کے سپرد کر کے بے فکری سے گھر سے باہر چل دیتے ہیں. بقول اس لڑکی کے یہ لڑکا ہماراکزن جسے ہم “بھیا” کہتے تھے۔

بچوں کو ٹی وی لگا کر ایک کمرے میں بٹھا دیتا تھااور مجھے سب سے بیانہ کر کے وہاں سے اٹھا لے جاتا تھا . اور میں اس کی درندگی کا شکار بنا کرتی تھی . ماں سے ہر بار یہ بچی ضد کرتی کہ مجھے بھی آپ کے ساتھ جانا ہے . مجھے آپ کے بنا گھر پر نہیں رہنا . بھیا گندہ ہے ….. لیکن ماں اسی کبھی مار پھٹکار، کبھی لالچ بہانوں سے گھر پر چھوڑ گھر کی خواتین کیساتھ گھر سے باہر ہی رہتی تھی . اور یہ سلسلہ پورے پانچ سال تک چلتارہا۔

Girl

Girl

اب وہ خبیث مکروہ لڑکا خود تو شادی کر کے گھر بسائے بیٹھا ہے اور لڑکی بڑی ہو چکی ہے تو سوال کرتی ہے کہ وہ کیا کرے ؟
وہ کہاں غلط تھی ؟
اس پورے واقعے میں اس کا کیا قصور تھا؟
اور اب اسے کیا کرنا چاہیئے ؟ میں بارہا اس بات پر شور مچا چکی ہوں کہ خدا کے لیئے مردوں کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کریں کہ وہ اپنی بچت کے لیئے یا بہن بھائیوں کے عشق میں مبتلا ہے یا امی جی اور ابا جی کی دھوتی پکڑ کر چلتا ہے تو خدا کے واسطے شادی نہ کرے . شادی تب کرے جب وہ جسے بیاہ کر لائے اسے ایک کمرے کا ہی سہی گھر دے سکے. جس میں کون آئے گا اور کون نہیں یہ وہ آنے والی عورت اپنے اور اپنے بچوں کے لیئے خود طے کرنے کا اختیار رکھتی ہو۔

یعنی ہمارا دین ہی ہمیں محرم اور نامحرم کی حدود کے اندر بھرپور حفاظت فراہم کرتا ہے .
اس کیس میں بھی محبت اور سلوک کے نام پر گھر میں محرم اور نامحرم کی کوئی تخصیص نہیں رکھی گئی اور بدکار نوجوان کے سامنے معصوم بچی کو شکار کے طور پر چھوڑ دیا گیا . اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اس “بھیا بدکار” نے اس گھر کی دوسری بچیوں کا شکارنہیں کیا ہو گا ؟
اب سوال یہ ہے کہ
اب کیا کیا جائے ؟
ایسے بچوں کو کیسے سمجھایا جائے؟
تو اس بچے کو اس بات کی ہمت دلانا ہو گی کہ آج کا زمانہ موبائل کا زمانہ ہے۔

پن کیمرہ ہر جگہ سے باآسانی خریدا جا سکتاہے .ایسے کسی بھی بچے یا بچی کو چاہیئے کہ موبائل کو سائلینٹ پر ڈال کر کہیں چھپا کر اس کی گندی گفتگو اور حرکات کو ریکارڈ کرے . اور اسے اپنے اور اسکے والدین کے سامنے ایک ہی وقت میں اس بدکار کی موجودگی میں پلے کر دے . اس کے بعد کی کاروائی اس کے ماں باپ کی ہے کہ شرم کریں. بہت دولت بچا لی اب اپنی بیوی اور بچوں کی عزت بچائیں . اور بہن بھائیوں کے جوتوں کے نیچے سے نکلیں . اور اللہ کی حدود میں پناہ لیں۔

Guilty

Guilty

جب تک ہم خود اس بات پر یقین نہیں رکھیں گے کہ میں جو کچھ کہہ یا کر رہی/رہا ہوں، وہ درست ہے، تب تک ہم کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکتے . اور آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہمارے ہاں لوگوں میں سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم دو ٹوک بات نہیں کرتے . ہمارے مسائل پیدا ہی ، اچھا ایسا کرتے ہیں… ویسا کرتے ہیں . ہوں … ہاں … دیکھتے ہیں… سوچتے ہیں.. جیسے مبہم الفاظ اور خیالات سے ہوتے ہیں . وقت گزر جانے کے بعد ہر بات اور اقدام سوائے سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے . اس پورے کیس میں ایک ماں کی شدید ناکامی چھلکتی ہے . جو اپنی بچی کی بدلتی حالت اور تڑپ کو نوٹس ہی نہ کر سکی . اس حساب سے وہ خاتون پوری مجرم ہے اس بچی کی معصومیت کے قتل کی۔

اب یہ لڑکی شادی شدہ ہے اور وہ خنزیر بھی . تو اسے اپنے بچوں کیساتھ وہ غفلت ہر گز نہیں برتنی چاہیئے جو اس کی ماں نے کی . اور کسی بھی رشتے پر اپنے بچوں کی عزت اور حفاظت کے لیئے اعتبار نہ کرے . اور اپنے بچوں پر عقابی نگاہ تو رکھے لیکن بچوں کونخود میں اتنا اعتماد دیں کہ بچے ہر بات آپ سے کھل کر کر سکیں . اور انہیں فی زمانہ ہونے والی ایسی باتوں کو واقعات کو سنا کر اس سے محفوظ رہنے کی تدابیر بھی بتاتے رہیئے . اور جس عورت یا مرد پر ایسی کسی بھی گندی سوچ یا منفی لہر محسوس ہو، اس سے اپنے فاصلے کو محفوظ انداز میں ہی بڑھا لیجیئے . ہر ایک کو ہاتھ کے مذاق اور بہت قریب آنے سے پہلی ہی بار روک دیجیئے . اکیلے میں کہیں کسی کے پاس بیٹھنے سے پرہیز کیجیئے . کچھ لوگوں پر تو بلکل کسی بھی بات کا اعتبار مت کیجیئے خاص طور پر اس کیس جیسی اپنی ماں پر جو آپکے بچوں کی نانی ہے ، اس کے سائے سے بھی اپنے بچوں کو بچا کر رکھئیے . اللہ پاک ہم سب کو ایسے حالات سے اپنی پناہ میں رکھے . آمین
ممتازملک

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر: ممتاز ملک