تحریر : محمد اشفاق راجا وزیراعظم نواز شریف کے بائی پاس آپریشن کو کئی ماہ ہوچکے لیکن چودھری اعتزاز احسن کو اب تک یقین ہے کہ ان کا آپریشن تو سرے سے ہوا ہی نہیں تھا کیونکہ سرجری کے سلسلے میں جس ہسپتال کا نام لیا گیا وہاں تو آپریشن ہوتا ہی نہیں۔ کئی دن پہلے وہ یہ سوال بھی اٹھا چکے ہیں کہ بائی پاس کا مریض ایک ہفتے تک سیڑھیاں چڑھنے کے قابل نہیں ہوتا، گویا وزیراعظم نے اگر آٹھ دن بعد سیڑھیاں چڑھ لیں تو اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ ان کا بائی پاس نہیں ہوا تھا، اب جو سوال انہوں نے اٹھایا ہے اس کا جواب تو وزیراعظم خود دے سکتے ہیں، یا ان کا کوئی ترجمان جناب اعتزاز احسن کی خدمت میں کوئی ایسا ثبوت پیش کرسکتا ہے جس سے انہیں واقعی یقین آجائے کہ آپریشن ہوا تھا۔
ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جو حضرات ان ایام میں وزیراعظم کی تیمارداری کے لئے لندن گئے تھے وہ کچھ ایسے شواہد پیش کر دیں جو چودھری صاحب کے شبے کو دور کرسکیں۔ لیکن کیا ملک میں وہ واحد شخص ہیں جو اس سلسلے میں شکوک کا اظہار کر رہے ہیں، جن دنوں وزیراعظم ابھی آپریشن کے لئے نہیں گئے تھے اور چند روز بعد جانے والے تھے ان دنوں بھی بہت سے لوگوں کے دلوں کو اس خیال سے اطمینان ہوتا تھا کہ وہ علاج کے ”بہانے” باہر جا رہے ہیں، اس لئے اب وہ واپس نہیں آئیں گے۔ ایک حلقے کا خیال تھا اور وہ اپنے اس خیال کو سو فیصد درست سمجھتے تھے کہ وہ علاج کے لئے نہیں گئے نہ انہیں ایسی کوئی ضرورت تھی بلکہ انہیں ”بھیجا” گیا ہے، اور ”بھیجنے والوں” نے اس بات کا بھی اہتمام کر دیا ہے کہ وہ اب مستقل طور پر لندن میں ہی رہ جائیں۔
Shahbaz Sharif and Chaudhry Nisar
بلکہ یار لوگوں نے تو ان کے جانشین کا نام بھی ”فائنل” کرلیا تھا، بعض بقراط تو یہ دور کی کوڑی لا رہے تھے کہ معاملہ اب اس بات پر اٹکا ہوا ہے کہ ان کی جگہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا جائے یا چودھری نثار علی خان کو، دونوں حضرات کے لئے الگ الگ دلائل تھے۔ جو شہباز شریف کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے تھے وہ ان کے لئے دلائل رکھتے تھے اور جن کا خیال تھا کہ اس عہدے کے لئے چودھری نثار علی خاں موزوں ہیں وہ ان کے خاندان کا فوجی پس منظر خاص طور پر بیان کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک بہت پڑھے لکھے صاحب نے جب شہباز شریف کے حق میں رائے دی تو اس تجزیہ نگار نے عرض کیا کہ اس کام کے لئے کئی مراحل طے کرنا ہوں گے کیا وہ آپ کے ذہن میں ہیں؟ کہنے لگے وہ کیا؟ عرض کیا وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں پہلے یہ عہدہ چھوڑیں گے، پھر صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے استعفا دیں گے۔
قومی اسمبلی کی کوئی نشست خالی ہوگی (مثلاً حمزہ شہباز شریف سے استعفا دلوایا جاسکتا ہے) تو اس پر ساٹھ دن کے اندر الیکشن ہوگا، قومی اسمبلی کے رکن کا حلف اٹھا کر جب وہ ایوان میں بیٹھیں گے تو اس بات کے مستحق ہوں گے کہ اگر ایوان کے 172 ارکان انہیں وزیراعظم چن لیں تو وہ وزیراعظم بن جائیں۔ کہنے لگے یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ انہیں وزیراعظم پہلے بنا دیا جائے اور وہ منتخب بعد میں ہوجائیں، عرض کیا آئین میں تو ایسی کوئی گنجائش نہیں، جو رکن قومی اسمبلی کے ایوان میں موجود ہو وہی امیدوار ہوسکتا ہے اور ووٹ ملنے پر منتخب بھی ہوسکتا ہے۔ بعض حضرات اسحاق ڈار اور خواجہ محمد آصف کو وزیراعظم بنانے کے لئے تلے ہوئے تھے، انہی دنوں ”ان ہاؤس” تبدیلی کی بات بھی ہوتی رہی۔ ابھی قیاس کے گھوڑے دوڑائے ہی جا رہے تھے کہ وزیراعظم نے لندن میں اپنے فرائض جزوی طور پر ادا کرنا شروع کر دئیے۔ بعض افسر اس سلسلے میں لندن چلے گئے اور وہیں سے ضروری فرائض کی ادائیگی شروع کر دی، یوں سمجھئے کہ لندن میں ایک منی پرائم منسٹر سیکرٹریٹ قائم ہوگیا۔
Prime Minister
اس سے پہلے ملک کے اندر یہ بحث بھی زور شور سے جاری رہ چکی تھی کہ وزیراعظم کی غیر حاضری میں قائم مقام وزیراعظم کا تقرر ہونا چاہئے، اگرچہ آئین میں اس عہدے کا کوئی ذکر نہیں، لیکن بعض ماہرین قانون بھی یہ مطالبہ کرتے پائے گئے کہ قائم مقام وزیراعظم کا تقرر ہونا چاہئے اور اگر نہیں ہوتا تو کسی بھی دوسرے وزیر کے احکامات غیر قانونی ہوں گے۔ یہ بحثیں، بلکہ کج بحثیاں کہنا چاہئے، جاری تھیں کہ وزیراعظم واپس آگئے اور لاہور میں چند روز آرام کے بعد اسلام آباد میں اپنے فرائض شروع کر دئیے۔
اس دوران انہوں نے شدید گرمی اور حبس کے موسم میں بعض انتخابی جلسوں سے بھی خطاب کیا۔ مظفر آباد کے جلسے کی مثال پیش کی جاسکتی ہے، پھر وہ بعض ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کے لئے بھی گئے، غالباً ان مشقت طلب سرگرمیوں کی وجہ سے بعض لوگوں کو شک ہوا کہ یہ عجیب وزیراعظم ہے، بائی پاس آپریشن کے بعد بھی آرام سے نہیں بیٹھتا، کیونکہ ان کا یہ خیال بھی تھا کہ بائی پاس کے بعد آدمی روزمرہ کے امور بھی سرانجام نہیں دے سکتا۔ پھر جن لوگوں کا یہ خیال تھا کہ وہ خود نہیں گئے، انہیں بھیجا گیا ہے وہ تو اور بھی حیران تھے اور پوچھتے پھرتے تھے کہ وہ واپس کیسے آگئے؟ جو سیاست دان روزانہ ٹی وی چینلوں پر وزیراعظم کی رخصتی کی پیش گوئیاں کر رہے تھے وہ الگ پریشان تھے، ان سے کوئی پوچھتا تو نئی تاریخ دے دیتے جیسے ڈاکٹر طاہر القادری نے 2014ء کے دھرنے کے دوران کہا تھا کہ 31 اگست نواز شریف کی حکومت کا آخری دن ہے اب پھر وہ جاتے جاتے ایک تاریخ دے گئے تھے جو گزر چکی۔ ان حالات میں چودھری اعتزاز احسن کو یہ سوال سوجھا ہے کہ جس ہسپتال میں آپریشن کا نام لیا جا رہا ہے وہاں تو آپریشن ہوتا ہی نہیں۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ اپنے علاج کے اخراجات خود برداشت کر رہے ہیں، چودھری اعتزاز احسن کے خیال میں یہ بات بھی درست نہیں۔