تحریر : حلیمہ گیلانی معاشرے میں روزبروز طلاق کی شرح میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہو رہا ہے ۔ اسلام نے ایک دوسرے کے ساتھ برتائو کے لیے خلوص نیت ،صلہ رحمی اور محبت کا درس دیا ہے لیکن اگر کبھی رویے اور سلوک میں کسی بھی وجہ سے بھول چوک ہو جائے تو اسلام ہمیں برداشت ،صبر وتحمل ،عفو ودرگزر کا درس دیتا ہے اسکے ساتھ ساتھ عزت و تکریم ،ادب واحترام اور حیاء اسلامی معاشرے کے حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے ۔ ان اقدار کو اپنانے سے خاندان مضبوط اور محبت کے جذبات سے لبریز رہنے کے ساتھ ساتھ لڑائی جھگڑے سے محفوظ رہتا ہے مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ اعلیٰ اسلامی اقدار آہستہ آہستہ ہمارے معاشروں سے ختم ہو رہی ہیں ان کی جگہ مغربی آزاد ْخیا ل سوچوں اور عادات نے لے لی ہے جس کے نتیجے میں برداشت اور صبر ایک دوسرے کا احترام اور عزت نفس کا خاتمہ ہو رہا ہے او ر اس کا اثر خاندان پر بھی پڑ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں خلع اور طلاق کے رجحانا ت میں خطرناک حد تک اضافہ ہور ہا ہے۔ معاشروں میں عدم برداشت کے باعث طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان نے عالمگیر صورت اختیار کر لی ہے جس سے خاندان متاثر ہو رہے ہیں۔
زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں طلاق کا رجحان دوسرے ملکوں کی نسبت دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر طلاق اور خلع کے 34500 سے زیادہ کیسز فیملی کورس میں رجسٹر ڈ ہوئے ہیں ۔طلاق کے اس بڑھتے ہوئے رجحان سے معاشرے کا کوئی طبقہ بھی ایسا نہیں جو متاثر نہ ہوا ہو معاشرتی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو عورت کا خاندان مر د کے خاندان کی نسبت تھوڑا کمزور سمجھا جاتا ہے اور عورت والے جس گھر میں اپنی بیٹی کی شادی کرتے ہیں ان سے ذرا دب کے رہتے ہیں۔ ایسے میں مرد یہ خود بخود تصور کر لیتا ہے کہ وہ زیادہ عزت دار ہے اور اسکی بیوی کے خاندان کا اس پر عزت کرنا فرض ہے جبکہ وہ اپنی بیوی کے سامنے اپنی ساس سسر کی اور بیوی کے خاندان کی بلاوجہ برائیاں کرنا معمول سمجھتا ہے یہاں یہ بات بھی بتانی ضروری ہے کہ ساس بہو کا جھگڑا طلاق کا باعث بننے میں اہم فیکٹر ہے۔ایسی ساسوں کا اپنے دامادوں کا ساتھ ناروا سلوک اور بیٹیوں کے گھروں میں بے جا مداخلت بھی طلاق کی وجوہات میں سے ہے۔
چھوٹی چھوٹی باتیں ہر گھر میں ہوتی ہیں جس کو درگزر کر دینا چاہیے لیکن اگر دیکھا جائے تو اگر کوئی ان باتوں کو نظرانداز کرنا بھی چاہیے تو اردگرد والے افراد ان باتوں کا اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جس سے معمولی سی بات بھی بڑھ جاتی ہے۔ حال یہ ہے کہ ہماری خواتین بھی ان کاموں میں پیش پیش ہیں اسطرح آپس میں غلط فہمیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں طلاق کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں اور دیکھا جائے تو انا پرستی بھی اہم وجہ ہے میاں بیوی کی ہٹ دھرمی خلع اور ایک دوسرے کو جدا کرنے کا باعث بنتی ہے اگر ہم اپنے ملک پاکستان میں شرح طلاق کی بات کریں تو اسکی فو الوقت وجہ جو طلاق کی شرح میں اضافے کا باعث بنتی ہے وہ غربت اور بے روزگاری ہے بے روزگاری کے اور غربت کے باعث انسانی نفسیات پر بے پناہ اثر ہوتا ہے انسان ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے جس کے باعث گھرو ں میں ناچاقی اور جھگڑے معمول بن جاتے ہیں ایسی صور ت میں مرد عورت پر ہاتھ اٹھاتا ہے اور غربت کے باعث نان نفقہ دینے میں بھی ناکام رہتا ہے۔ یہ دونوں وجوہات ہی ہمارے ملک میں طلاق اور خلع کا باعث بن رہی ہے اور رہی سہی کثر ہمارے سوشل میڈیا نے پوری کردی ہے۔
Society
آج کل ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ اثر غیر مثبت فضول ،فتنہ خیز اور منفی میڈیا کا ہے میڈیا ذہن سازی کا کام کرتا ہے انڈین گانے ،فلمیں جن میں فحاشی اور اخلاق سے گرے ہوئے مارننگ شوز دکھائے جا رہے ہیں اسکے نتائج ہماری آئندہ نسلوں پر اثرانداز ہو رہے ہیں ہماری نوجوان نسل خاص کر لڑکیاں ٹی وی ڈراموں کو دیکھ کر ان کرداروں سے رنگ برنگی رونقوں سے متاثر ہو کر ایسے خواب دیکھنا شروع کر دیتی ہیں لیکن جب ان کے خواب چکنا چور ہوتے ہیں تو وہ بغاوت پر اتر آتی ہیں جس کے باعث گھر میں لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اور نوبت طلاق تک آجاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر انٹرنیٹ کے غلط اور بے جا استعمال سے کئی خاندان اجڑ چکے ہیں اب موبائل فون کو ناجائز اور خواہ مخواہ کی ضرورت بنا کر لوگوں نے اپنے گھر اجاڑ دیئے ہیں موبائل فون کو تو تسبیح بنا لیا ہے جس کو دیکھو وہ موبائل میں مصروف ہے اور لوگوں کے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لیے ٹائم نہیں اس سے دوریاں بڑھتی چلی جاتی ہے اور طلاق کا زیادہ باعث دین اور دینی تعلیمات سے دو ری ہے اگر معاشرہ دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہو اور شریعت کو اپنے سامنے رکھے تو طلاق کے رجحان میں کمی واقع ہو سکتی ہے دینی تعلیمات کو عملی زندگی میںاپنایا نہیں جارہا مثال کے طور پر ہمارے معاشرے میں عورتوں کی ذمہ داری گھر کا کام کرنا ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپکا فرض ہے لیکن ان کے حقوق سے غافل رہتے ہیں۔
جب عورتیں اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی ہے تو پھر ایسے مطالبے پر گھروں میں لڑائی جھگڑے اور مار پیٹ شروع ہو جاتی ہے اور بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔طلاق اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ عمل ہے طلاق کی نویت سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر کریں اپنے اندر مرد اور عورت کو صبربرداشت کا عنصر پیدا کرنا چاہیے انا پرستی ضد اور ہٹ دھرمی کو جگہ نہیں دینی چاہیے اللہ اور اسکے رسولۖ کے اپنائے ہوئے طریقوںپر عمل کرنا چاہیے اس کے علاوہ والدین کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر انکاباہمی رشتہ ٹوٹ گیا تو سب سے زیادہ متاثر ان کے بچے ہونگے جو خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگیں گے اور ان میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جائے گا والدین کو چاہیے کہ کم از کم وہ اپنا نہیں تو اپنے بچوں کے آنے والے کل کا ضرور سوچیں اور سمجھوتہ کریںتاکہ طلاق کی نوبت نہ آئے۔