امریکہ (جیوڈیسک) امریکی صدارتی مباحثوں کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک مرد اور ایک خاتون امیدوار کے درمیان مباحثہ ہوا۔ مباحثے سے قبل ہونے والے تازہ ترین رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ہلری کلنٹن کو ڈونلڈ ٹرمپ پر صرف 3 پوائنٹس کی برتری حاصل تھی۔
دنیا بھر دس کروڑ لوگوں نے یہ مباحثہ براہ راست دیکھا۔ دونوں امیدواروں نے اسٹیج پر آنے کے بعد سب سے پہلے ایک دوسرے سے مصافحہ کیا۔ ہلری سرخ اور ٹرمپ کالے رنگ کے سوٹ میں ملبوس تھے۔
پہلا سوال ہلری کلنٹن سے کیا گیا جو معیشت اور آمدنی کے تناسب اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بارے میں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نئے روزگار ٹیکنالوجی کے شعبے میں پیدا ہوں گے۔ اداروں کے منافع کی تمام کارکنوں میں تقسیم یقینی بنائی جائے گی اور انہیں مزید سہولتیں دی جائیں گی۔ جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ میکسیکو اور چین ہمارے روزگار اپنے ملکوں میں لے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے تجارتی معاہدے پھر سے لکھنے ہوں گے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امیر لوگ نئے روزگار پیدا کرتے ہیں ۔ اگرانہیں ٹیکسوں میں چھوٹ ملے گی تو وہ نئے کاروبار شروع کریں گے اور اپنی دولت ملک واپس لائیں گے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس طریقے سے دو اعشاریہ پانچ سے پانچ ٹریلین ڈالر واپس لائیں گے۔
ہلری کلنٹن نے کہا کہ وہ کالج کی تعلیم کو عام لوگوں کی دسترس میں لانا چاہتی ہیں اور طالب علموں کے قرضے ختم کرنا چاہتی ہیں جبکہ ٹرمپ نے کہا کہ یہ صرف اور صرف سیاسی نعرے ہیں جو کبھی پورے نہیں ہوں گے۔
ٹرمپ نے اپنے ٹیکس گوشواروں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے بارے کہا کہ اس کا آڈٹ ہو رہا ہے اور وہ اس کے بعد اپنے گوشوارے ظاہر کر دیں گے۔ ٹرمپ نے کہا کہ جس دن ہلری اپنی تیس ہزار سے زیادہ ای میلز سامنے لائیں گی وہ اپنے گوشوارے ظاہر کر دیں گے۔
کلنٹن نے کہا کہ ٹرمپ اپنے گوشوارے اس لیے ظاہر نہیں کر رہے کہ ان کے جھوٹ کھل جائے گا کہ وہ فیڈرل ٹیکس جمع نہیں کراتے، اور یہ کہ انہوں نے 650 ملین ڈالر کا ٹیکس دینا ہے۔ ای میلز کے بارے میں ٹرمپ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کلنٹن نے کہا کہ یہ ان کی غلطی تھی جبکہ ٹرمپ نے کہا انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا۔
ٹرمپ نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ بیس ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے ایک کاروباری شخص کو ہی صدر بننا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کو نئے اسکول نئے ائرپورٹ، نئے اسپتال اور نئی سڑکیں چاہیں۔
کلنٹن نے ٹرمپ پر الزام لگایا کہ وہ اپنے کارکنوں کو پورا معاوضہ نہیں دیتے۔
نسلی امتیاز کے بارے میں بات کرتے ہوئے کلنٹن نے کہا کہ ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہو گا جس میں پولیس اور عوام کے درمیان اعتبار قائم کرنا ہوگا پولیس کی تربیت کوبہتر اور عدل کے نظام میں اصلاح کرنا ہوگی۔ ٹرمپ نے کہا کہ ہمیں قانون کو بالا دست بنانا ہو گا۔
انہوں نے صدر اوباما کے آبائی شہر شکاگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا اس سال وہاں سڑیٹ کرائمز میں تین ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور یہ کہ تارکین وطن ان ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں ۔ کلنٹن نے کہا کہ ہمیں گن کنٹرول کے لیے لوگوں کا ماضی چیک کرنا چاہیے اور وہ لوگ جو ہمارے لیے خطرہ ہیں انہیں بندوقوں تک رسائی نہیں ہونی چاہیے۔
ٹرمپ نے کہا کہ سیاست دانوں نے افریقی امریکیوں کو استعمال کیا گیا ہے اور انہیں صرف ووٹ کے وقت یاد کیا جاتا ہے۔
ہلری نے ٹرمپ کی امتیازی سلوک کو نشانہ بناتے ہوئے کہ ٹرمپ نے 1973 میں سیاہ فاموں کو اپنی رہائشی عمارت میں جگہ دینے سے انکار کیا تھا جس کے باعث محکمہ انصاف نے ان پر مقدمہ کیا تھا اور اسی لیے وہ ملک کے پہلے سیاہ فام صدر کے پیدائشی سرٹیفیکیٹ کا تقاضا کرتے رہے اور اس کے بعد اسے جعلی قرار دیتے رہے۔
سائبر حملوں کے سوال کے جواب میں کلنٹن نے کہا کہ ہمیں دو قسم کے دشمنوں کا سامنا ہے ایک وہ جو پیسہ بنانے کے لیے ایسا کرتے ہیں اور دوسرے جو ریاستیں کرتی ہیں جیسا کہ روس جو ہمارے اداروں کی معلومات چرا رہا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ روس کے صدر پوٹن کو اچھا لیڈر کہتے ہیں۔
داعش کا مقابلہ کرنے کے جواب میں کلنٹن نے کہا کہ وہ دہشت گرد کمانڈروں کو ختم کریں گی جیسا کہ انہوں نے وزیر خارجہ کی حیثیت اسامہ بن لادن کا نشانہ بنایا تھا۔ ٹرمپ نے کہا کہ اگر عراق میں دس ہزار فوجیوں کو رہنے دیا جاتا تو آج کا عراق مختلف ہوتا اور تیل کے کنویں دہشت گردوں کے قبضے میں نہ ہوتے۔
ملک کے اندر سے ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بارے میں کلنٹن نے کہا کہ ہمیں اپنے دوست ملکوں کے ساتھ معلومات کے تبادلے سے ان حملوں کو پہلے سے روکنے میں مدد حاصل ہوئی ہے۔ ٹرمپ نے کاانکار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے ایران پر مزید دباو ڈالنے کے بجائے ان سے معاہدہ کر لیا جبکہ نیٹو کے بارے میں ٹرمپ نے کہا کہ اس اتحاد پر خرچ ہونے والی رقم ک73 فیصد امریکہ دیتاہے ۔ ٹرمپ نے کہا کہ ہم جن ملکوں کا دفاع کر رہے ہیں ان ملکوں کو ہمیں اس کا معاوضہ دینا چاہیے۔
ایٹمی ہتھیاروں پر بات کرتے ہوئے کلنٹن نے کہا کہ ٹرمپ جیسے آدمی کو ان ہتھیاروں کے کوڈز نہیں ملنے چاہیے جبکہ ٹرمپ نے کہا کہ ایٹمی ہتھیار دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
ٹرمپ نے ایران معاہدے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا میں ہونے والا برا ترین معاہدہ تھا اور نتن یاہو بھی اس سے خوش نہیں۔
کلنٹن نے کہا کہ مجھے جمہوریت پر یقین ہے اور میں ووٹروں پر اعتبار کروں گے۔ ٹرمپ نے کہ مجھے امریکہ کا مستقبل عزیز ہے۔ میں امریکہ کو دوبارہ سب سے اچھا بنانا چاہتا ہوں۔ مجھے یقین نہیں کہ ہلری ایسا کر سکتی ہیں۔
1960 سے شروع ہونے اور ٹیلی وژن پر دکھائے جانے والے ان مباحثوں کی ایک بھرپور تاریخ ہے جس میں ری پبلیکن پارٹی کے نائب صدر رچرڈ نکسن اور میسا چوسٹس سے ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر جان کینیڈی نے حصہ لیا تھا۔
1960 کے بعد 1964 اور 1968 اور پھر 1972 میں ٹیلی وژن کے مباحثے نہیں ہوئے۔
بعد ازاں 1987 میں کمشن آن پریڈینشل ڈبیٹس کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد یہ یقینی بنانا تھا کہ ہر چار سال کے بعد صدراتی مباحثے انتخابی مہم کا ایک لازمی حصہ ہوں گے۔ یہ کمشن 1988 سے ہر الیکشن کے موقع پر مباحثوں کا بندوبست اور انتظام کررہا ہے۔ اور اس سال بھی یہ مباحثے اسی کمشن کے زیر اہتمام رہے ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلری کلنٹن اور ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان پہلاصدارتی مباحثہ ریاست نیویارک کے شہر ہیمپسٹڈ کی ہافسرا یونیورسٹی میں ہوا جسے براہ راست دنیا بھر کے لیے نشر کیا گیا۔
اس سال ہونے والے تین مباحثوں میں سے ایک مباحثے میں دونوں پارٹیوں کے نامزد نائب صدور بھی حصہ لیں گے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے ورجینیا کے گورنر ٹم کین اور ری پبلیکنز نے انڈیانا کے گورنر مائک پینس کو اس عہدے کے لیے نامزد کیا ہے۔