تحریر : ساجد حبیب میمن شاعرِ مشرق اور مفکرِ پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے مارچ 1907 میں انگلستان میں قیام کے دوران اپنی ایک نظم میں لکھا تھا: زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہو گا سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا گزر گیا اب وہ دورِ ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے بنے گا سارا جہاں میخانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے کَھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا تمہاری تہذیب، اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
Allama Mohammad Iqbal
اقبال نے کہا تھا کہ مغربی تہذیب اپنے ہی خنجر سے خودکشی کرے گی لیکن شاید علامہ اقبال یہ لکھنا بھول گئے کہ مغرب خود کشی کے بعد یہی خنجر مشرق کے حوالے کر دے گا اور اہلیانِ مشرق و اسلام بھی اسی خنجر سے اپنی تہذیب کا گلا کاٹیں گے۔پہلے مغرب کی بات کرتے ہیں۔ کیا مغرب کے بارے میں اقبال کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی یا نہیں؟ پاکستان کے ایک بہت معروف دانشور ،جن کی گالیاں بھی ہاٹ کیکس کی طرح بِکتی ہیں وہ اس بارے میں کہتے ہیں کہ اقبال کی مغرب بارے پیش گوئی غلط ہے۔
کون سا خنجر اور کون سی خودکشی؟ وہ موصوف اقبال کو گلی محلے کا شاعر بھی کہتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اقبال کی بات میں کوئی صداقت نہیں۔ مغرب میں تو انصاف کا بول بالا ہے، خوشحالی ہے، ترقی ہے اور مغربی تہذیب ایک آئیڈیل تہذیب ہے۔ لیکن ان کو کون سمجھائے کہ اقبال نے تہذیب کی بات کی تھی، آئیڈیلزم اور مادی ترقی کی نہیں۔ یہ تہذیب آپ کی تو آئیڈیل ہو سکتی ہے لیکن ہماری نہیں، اسلام کی نہیں، مشرق کی نہیں۔ کیونکہ یہ وہ تہذیب ہے جہاں 70 سے 80 فی صد بچے ناجائز پیدا ہوتے ہیں اور یہ فی صد ان کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق ہے۔ یہ وہ تہذیب ہے جہاں عورت کے لباس پہننے کا رواج ختم ہونے کو ہے۔
Western Civilization
رشتوں کا احترام بری طرح پامال ہو چکا۔ حقیقی رشتوں کے درمیان کے جنسی تعلقات کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ ہم جنسی پرستی کو جائز قرار دیا چکا ہے۔ ہم جنس پرست نہ صرف یہ مکروہ اور غیرانسانی فعل کرنے میں آزاد ہیں بلکہ قانونی طور پر انکو شادی کا حق بھی حاصل ہے۔جس مغرب کی بات آپ کرتے ہیں شاید آپ کو معلوم نہیں کہ خواتین و بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں، عورتوں پر تیزاب پھینکنے ، عورت کے حقوق پامال کرنے اور قتل و غارت کے سب سے زیادہ واقعات اسی معاشرے اور تہذیب میں ہوتے ہیں۔اس سے بڑی خودکشی اور کیا ہوگی؟ اگر آپ تہذیب کی بات کرتے ہیں تو مغربی تہذیب اپنی مادر پدر آزادی اور لبرلزم کے خنجر سے کب کی خود کشی کر چکی۔اقبال کی پیش گوئی کب کی درست ثابت ہو چکی۔
مغرب کی تہذیب کے جنازے پر ہمیں کوئی دکھ نہیں لیکن اپنی تہذیب کے قریب المرگ ہونے پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہم نے مغرب کو آئیڈیل بنا کر اپنی تہذیب کو اس قدر آلودہ کر دیا ہے کہ اسلام کے ماننے والوں کا سانس گھُٹتا ہے۔ ہم نے مغرب کے پیروکار بن کر اسلامی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ مغرب کا خون آلود خنجر سیکولرزم، لبرلزم اور روشنی خیالی کی شکل میں ہماری شہ رگ کاٹ رہا ہے اور ہم بے خبری میں کٹے جا رہے ہیں۔ بے حیائی اور فحاشی نے ہمارے گھروں میں ڈھیرے ڈال رکھے ہیں۔
کبھی اے نوجوں مسلم !تدبر بھی کیا تو نے؟ وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟
پاکستان میں مغربی میڈیا کی یلغار اور انٹرنیٹ نے فحاشی اور بے حیائی کو صنعت کی شکل دے دی ہے۔ خواتین اور لڑکیاں گلیوں، محلوں، بازاروں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں چست پاجاموں، جینز کی پینٹوں، باریک شرٹوں اور دوپٹے کے بغیر نظر آ رہی ہیں۔ مخلوط میل ملاپ عام ہو چکا ہے۔ میڈیا چینلز پر خواتین کا دوپٹہ توبہت عرصہ قبل اتر چکا تھا ، اب کپڑوں کا سائز بھی چھوٹا ہوتا جارہا ہے۔ بیوٹی پارلرز، مساج سنٹرز، جوس کارنرز اور آئس کریم بارز کی صورت میں ہر شہر میں برائی کے سینکڑوں اڈے پولیس کی سرپرستی میں چلنے لگے ہیں۔ کچھ روشن خیال لوگ اور مغربی تنظمیں ہمارے ملک میں ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دینے کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔
Pakistani Media Channels-Women
ہمارا میڈیا بھی روشن خیالی کی اسی مغربی ڈگر پر چلتے ہوئے فحاشی پھیلانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا جبکہ اپنے مذہب ، قومیت اور حب الوطنی کو فروغ دینے کے لئے اس کی کوئی خدمات نظر نہیں آتیں۔ کاش کہ ہم اپنے دشمن ہمسائے بھارت سے ہی کچھ سیکھ لیں۔ بھارتی جو فلم بناتے ہیں، جو ڈرامہ بناتے ہیں اس میں اپنے مذہب کو نمایاں کرتے ہیں۔ اپنی مذہبی تعلیمات کو فروغ دیتے ہیں، ڈراموں اور کارٹونز کی ذریعے اپنے بچوں کو ہندو مذہب پر کاربند رہنا سکھاتے ہیں جبکہ ہمارا میڈیا اسلام کو فروغ دینے کی بجائے ہندو مذہب کو اپنی تہذیب میں پھلنے پھولنے کا موقع دے رہا ہے۔ جہاں تک فحاشی اور بے حیائی کا تعلق ہے تو ہندئوں کا مذہب انہیں اجازت دیتا ہے۔ لیکن ایک مسلمان کی کامیابی اسلام کے سوا کسی اور نظام اور تہذیب میں نہیں۔
ہمیں اگر اپنی تہذیب، اپنے مذہب اور اپنے ملک کو بچانا ہے تو مغربی اور بھارتی میڈیا وار کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہمارے حکمرانوں اور میڈیا مالکان کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ بھارتی ڈرامے اور فلمیں پاکستانی معاشرے کے لئے تباہی کا سبب بن رہے ہیں، ان پر فوری پابندی لگائی جائے۔ بھارتی چینلز کی نشریات بند کی جائیں۔ اپنے مذہب، روایات اور ثقافت کو فروغ دیا جائے۔ اس کے علاوہ ملک کے اندر فحاشی اور بے حیائی کے اڈوں کے خلاف بھی جنگ کی جائے اور ان کا قلع قمع کیا جائے تاکہ قوم خدا کے عذاب سے بچ سکے۔
میرے بھائیو آپ گلی، محلوں، بازاروں، سکولوں، کالجوںاور یونیورسٹیوں میں چست پاجوموں، جینز کی پینٹوں ،باریک شرٹوں میں ملبوس کھلے بالوں والی لڑکیوں کو دیکھ کر اپنی جنسی حوس کی تسکین کرتے ہو۔ یقینا وہ عورتیں بھی کسی کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں ہیں۔ لیکن کبھی آپ نے یہ سوچا کہ کہیں آپ کے گھر کی عورتیں بھی اسی طرح غیر اخلاقی لباس پہن کر اور بن سنور کر بازار کی زینت اور دوسروں کی جنسی تسکین کا باعث تو نہیں بن رہیں؟ یہ گھر کے مردوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی عورتوں کی عزت کی حفاظت کریں اور انہیں بے حیائی اور بے شرمی کے قریب نہ جانے دیں۔ خدارا اپنی اور دوسروں کی عزت کا احترام کریں۔ فحاشی و بے حیائی کی مغربی تہذیب کے ہر رنگ کو شکست دیں۔ اپنے گھر محلے اور ارد گرد کے ماحول میں اسلامی نظام زندگی کو فروغ دیں۔ یہی دنیوی و اخروی کامیابی کی ضمانت ہے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی