کراچی (جیوڈیسک) پاکستانی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اصلاح الدین کا شمار اپنے وقت کے تیز ترین فاروڈز میں ہوتا تھا اور 1972 کے میونخ اولمپکس میں کمپیوٹر سے ان کی رفتار ناپی گئی تھی۔
اصلاح الدین کو آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ ان کی جو رفتار سامنے آئی تو ماہرین حیران رہ گئے تھے اور اسی وجہ سے ان کا ڈوپ ٹیسٹ بھی ہوا تھا۔
’جس زمانے میں میں کھیل رہا تھا اس وقت دنیا کی ہر ٹیم کے پاس پنلٹی کارنرز پر تیز ہٹ لگانے والے کھلاڑی ہوا کرتے تھے ان میں پال لٹجنز، کراؤزے، مائیکل پیٹر، کک اور مکھ بین سنگھ قابل ذکر تھے۔‘
میں تیزی سے ڈیش کرتا ہوا گیند کو درمیان میں ہی حاصل کر کے ان کے پنلٹی کارنرز ناکام بنا دیا کرتا تھا۔ میں نے میونخ اولمپکس میں مکھ بین سنگھ کے تمام ہی پنلٹی کارنرز اور کارنرز ناکام بنائے بلکہ ایک پنلٹی کارنر پر ان کی تیز ہٹ سے میری ہاکی سٹک بھی ٹوٹ گئی لیکن مکھ بین سنگھ اس میچ میں ایک بھی گول نہ کرسکے۔‘
اصلاح الدین کہتے ہیں کہ ٹیم سیمی فائنل میں بھارت کو دو گول سے ہراکر فائنل میں پہنچ گئی تھی جہاں مقابلہ مغربی جرمنی سے ہونا تھا۔ ٹیم جشن منارہی تھی لیکن انھیں ڈوپ ٹیسٹ کے لیے میڈیکل پینل کے سامنے پیش ہونا پڑا تھا۔
’میچ کے فوراً بعد مجھے کہا گیا کہ آپ کا ڈوپ ٹیسٹ ہونا ہے۔ یہ صورتحال میرے لیے نئی تھی کیونکہ اس سے قبل انٹرنیشنل ہاکی میں شاید ہی کسی کھلاڑی کا ڈوپ ٹیسٹ ہوا ہو۔ کافی دیر تک چھ جرمن ڈاکٹرز کا پینل آپس میں گفتگو کرتا رہا اور پھر انھوں نے مجھے جانے کی اجازت دے دی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس میچ میں 22 کھلاڑی کھیل رہے تھے آپ نے مجھے ہی کیوں ڈوپ ٹیسٹ کے لیے منتخب کیا جس پر ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ آپ جب ڈی میں پنلٹی کارنرز کو روکنے کے لیے دوڑتے تھے تو آپ کی سپیڈ انتہائی غیرمعمولی تھی۔
کمپیوٹر سے سپیڈ معلوم کی گئی تو کمپیوٹر نے یہ سپیڈ گیند سے دگنی بتائی۔ ہم سمجھے کہ کمپیوٹر نے غلطی کی ہے لیکن جب کمپیوٹر نے دوبارہ یہی سپیڈ بتائی تو پتہ چلا کہ کمپیوٹر صحیح ہے اسی لیے آپ کو ڈوپ ٹیسٹ کے لیے منتخب کیا گیا۔‘
اصلاح الدین کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے پورے کریئر میں صرف ایک بار خطرناک چوٹ لگی تھی لیکن وہ دانستہ تھی۔
’مانٹریال اولمپکس میں پاکستان نے ہالینڈ کو تیسری پوزیشن کے میچ میں شکست دی۔ اس میچ میں پال لٹجنز کو پہلے ہاف میں سات پنلٹی کارنرز ملے جو میں نے اپنی تیز رفتاری سے ناکام بنائے جس پر ہالینڈ کے کوچ نے لٹجنز پر خاصی برہمی دکھائی اور انھیں یہاں تک کہہ دیا کہ اب اگر اصلاح الدین تمہارے راستے میں آجائے تو اسے مار دو۔
لٹجنز نے دوسرے ہاف میں پنلٹی کارنر کی ہٹ گول کی طرف مارنے کے بجائے براہ راست میری طرف ماری جس کے نتیجے میں میرا گھٹنا بری طرح زخمی ہوگیا اور مجھے سٹریچر پر باہر لے جایا گیا۔
میچ کے بعد پال لٹجنز ہسپتال آئے اور یہ تسلیم کیا کہ انھوں نے جان بوجھ کر مجھے زخمی کیا تھا کیونکہ ان کے کوچ نے انہیں بہت برا بھلا کہا تھا۔‘
اصلاح الدین کہتے ہیں کہ وہ اس وقت وہ یہ سوچ رہے تھے کہ وہ دوبارہ چلنے کے قابل بھی ہوسکیں گے یا نہیں لیکن وہ دوبارہ ہاکی کھیلنے کے بھی قابل ہوگئے تھے۔
’مانٹریال اولمپکس کے چھ ماہ بعد لاہور میں قائداعظم صد سالہ ٹورنامنٹ ہوا تو میری ملاقات پال لٹجنز سے ہوٹل کی لابی میں ہوئی۔ وہ یہ سمجھے کہ میں پاکستان ٹیم کا آفیشل ہوں کیونکہ ان کے گمان میں بھی نہ تھا کہ گھٹنے کی اس شدید چوٹ کے بعد بھی میں دوبارہ کھیلنے کے قابل ہوسکوں گا۔ لٹجنز نے مجھ سے پوچھا کہ کیسے ہو جس پر میرا جواب تھا کل میدان میں ملاقات ہو گی۔‘