تحریر : سید توقیر زیدی رشین فیڈریشن کے کمانڈرز کا دستہ خصوصی پرواز سے پاکستان پہنچ گیا ہے جو یہاں پاکستانی دستوں کے ساتھ مل کر جنگی مشقوں میں حصہ لے گا اور یہ مشقیں اگلے ماہ تک جاری رہیں گی۔ اس پروگرام کو معطل کرانے کے لئے بھارتی کوشش ناکام ہو گئی ہے۔ ہمارے آئی ایس پی آر کے مطابق یہ مشترکہ مشقیں دہشت گردی کو روکنے کے حوالے سے ہوں گی اور یہ بہت بڑی تاریخ رقم ہورہی ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خان نے امریکہ اور سوویت یونین کے دعوت ناموں میں سے امریکی دعوت کو پذیرائی بخشی اور روس کا دورہ کرنے کی بجائے امریکہ چلے گئے یوں پاکستان امریکی لابی کا حصہ بن گیا، سرد جنگ کے دور میں پاکستان امریکی اوربھارت بظاہر روسی کیمپ میں رہا اور یوں پاک روس تعلقات خوشگوار موڑ پر نہ آ سکے۔
پھر افغانستان میں روسی فوج کی مدد سے قائم ہونے والی حکومت کٹھ پتلی کہلائی اور القاعدہ کے بہانے امریکہ نے افغانستان پر یلغار کی تو پاکستان سے مجاہدین نے بھی حصہ لیا اور بالآخر روس کو نکلنا پڑا۔ پھر طالبان کا دور آیا، جنہوں نے اسامہ بن لادن کے حوالے سے موقف میں سختی پیدا کی تو امریکہ اور اتحادیوں نے سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور آج تک افغانستان اسے بھگت رہا ہے۔
ادوار آئے اور گئے۔ پاکستان کے چین کے ساتھ تو گہرے مراسم ہیں اب روس کے ساتھ بھی دو طرفہ تعلقات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات دوستانہ ہو گئے اسی کے تحت یہ فوجی مشق طے کی گئی۔ بھارت نے اپنے سابق تعلقات کے حوالے سے روسی صدر پیوٹن سے ان مشقوں کو ملتوی کرنے کی درخواست کی اور ان پر زور بھی دیا تاہم روس نے واضح کر دیا کہ پروگرام تبدیل نہیں ہوگا، یوں بھارت کو یہاں شکست ہو گئی۔ اس سے پاکستان اور روسی فیڈریشن کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی۔
General Raheel Sharif
اس مرحلے پر جنرل راحیل شریف نے پھر کہا کہ قوم اور فوج مل کر ملک کا دفاع کریں گی اور ہم دشمن کی کسی بھی حرکت کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں اور بھارت ہمیں کسی میدان میں پیچھے نہیں پائے گا۔اسی فضا میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے برملا اور کھل کر کہا کہ اختلافات اپنی جگہ ہم بیرونی خطرے کی صورت میں اپنی مسلح افواج کے ساتھ ہیں۔
پوری قوم شانہ بشانہ ملکی دفاع میں حصہ لے گی۔یہ خوش آئند ہے کہ اپنی اپنی جگہ تمام جماعتوں نے اسی موقف کا اعادہ کیا ہے تاہم اس پر مکمل اتفاق رائے کے باوجود یہ بات کھٹکتی ہے کہ یہ سب ایک پلیٹ فارم پر کیوں نہیں ہوا؟ ہمارے خیال میں اس کے ذمہ دار حکمران ہیں کہ یہ انہی کی ذمہ داری ہے۔ یہ تو وزیراعظم کو چاہیے تھا کہ جونہی بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کا بازار گرم کیا تھا تبھی قومی کانفرنس بلا لیتے۔حالات صاف بتاتے ہیں کہ ملکی دفاع کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں ہے وزیراعظم کانفرنس بلاتے تو سبھی آ بھی جاتے اور ملکی دفاع پر متفقہ اور مشترکہ موقف کا بھی اعادہ کر دیتے۔
Nawaz Sharif
بہرحال اب ملک کے اندر کی تصویر بہتر انداز میں نظر آنے لگی ہے۔ شدید محاذ آرائی ایک مثبت اور معمولی عمل سے یکایک خوشگوار ماحول میں تبدیل ہوگئی ہے۔بقول وزیراعظم انہوں نے ہدایت کی کہ کوئی حرکت نہ کی جائے جلسہ ہونے دیا جائے کہ وہ اپنا حق استعمال کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں۔ مسلم لیگی کارکنوں کو منع کر دیا گیا اور انتظامیہ نے اڈہ پلاٹ پر جلسے کی اجازت بھی دے دی۔
مقابلہ بازی اور محاذ آرائی کی فضا ختم ہوگئی اور سیاسی سرگرمی رہ گئی اب جلسہ ہوگا اور پرامن ہوگا جاتی عمرہ جانے والی بات کی تو بار بار تردیدکی گئی جو خوش آئند ہے۔جہاں تک معروضی حالات کا تعلق ہے تو یہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ بھارت کے جارحانہ رویے اور فوجوں کی نقل و حمل سے خدشات موجود ہیں اس لئے پوری قوم کا یک آواز ہونا اچھا پیغام دے گا، کانفرنس ہوتی تو بات ہی الگ تھی۔
جمہوریت کا ذکر کیا جاتا ہے تو پھر اس پر اور جمہوری روایات پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ ملک کے اندر بہت سے امور تو محض رپورٹیں سن کر انجام دیئے جاتے ہیں لیکن بہتر ہو کہ پارلیمنٹ کا فورم بھی استعمال کیا جائے اس مسئلہ پر قومی اسمبلی کا اجلاس ہونا چاہیے۔ سب کو اعتماد میں لیا جائے۔