شمالی وزیرستان (جیوڈیسک) پاکستانی حکام نے شمالی وزیرستان کے ان متاثرین کو طورخم کے راستے پاکستان داخل ہونے سے روک دیا ہے جنھوں نے آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں افغانستان کی جانب نقل مکانی کی تھی۔ ان متاثرین سے کہا گیا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان کی سرحد پر قائم چوکی غلام خان کے راستے پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔
آج خیبر ایجنسی میں ذرائع کے مطابق طورخم کے مقام پر ایک سو کے لگ بھگ خاندان پاکستان داخل ہونا چاہتے تھے لیکن انھیں اجازت نہیں دی گئی اور وہ واپس افغانستان میں قائم پاکستانی متاثرین کے کیمپ میں واپس چلے گئے ہیں۔
افغانستان سے طور خم کے راستے گزشتہ ہفتے درجنوں خاندان پاکستان آچکے ہیں لیکن اب گزشتہ روز ان کی ظور خم کے راستے آمد پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ پاکستان حکومت نے اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔
اس بارے میں شمالی وزیرستان کے پولیٹکل ایجنٹ اور خیبر ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ سے رابطے کی بارہا کوشش کی لیکن ان کے بارے میں یہ ہی بتایا گیا کہ صاحبان مصروف ہیں۔
افغانستان کے صوبہ خوست سے ایک متاثرہ شخص سلیم خان نے بتایا کہ انھیں اطلاع ملی ہے کہ بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو طور خم سے واپس افغانستان بھیج دیا گیا ہے اور انھیں کہا گیا ہے کہ وہ غلام خان کے راستے شمالی وزیرستان ایجنسی جا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان متاثرین کی واپسی کے حوالے سے پاکستانی حکومت کے ساتھ ان کے جرگے ہوئے ہیں لیکن اب تک حکومت انھیں کوئی واضح لائحہ عمل نہیں بتا سکی۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ حکومت نے پہلے ان متاثرین کو وطن واپس لانے کے لیے متعدد اعلانات کیے تھے لیکن اب حکومت کی جانب سے ان متاثرین کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔
فوجی آپریشن میں میران شاہ بازار مکمل طور پر تباہ اور ویران ہو گیا تھی افغانستان کے صوبے خوست سے ملک عمر دین وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ دو سال پہلے آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد بڑی تعداد میں لوگ افغانستان کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہوگئے تھے اور یہاں خوست کے علاقے میں گلونو کیمپ میں پناہ لی تھی۔
پاکستان کی جانب سے جب واپسی کے لیے کہا گیا تو سات ہزار دو سو سے زیادہ متاثرین نے فارم پر کر کے شمالی وزیرستان کی انتظامیہ کو بھجوائے جس کے بعد حکام سے ان کے مذاکرات بھی ہوئے لیکن اب تک ان کے لیے راستے نہیں کھولے گئے۔
افغانستان جانے والے متاثرین نے گلونوں کیمپ سے بتایا کہ افغانستان کی حکومت نے ان کا بہت خیال رکھا ہے لیکن اب موسم کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اس لیے انھیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ضرب عضب جون 2014 میں شروع کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کی تھی ۔ اس میں سب سے زیادہ متاثرین خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں پہنچے تھے جبکہ پاک افغان سرحد کے قریب رہائشی لوگ افغانستان کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے۔