پاکستان میں محرم کا آغاز: سیکورٹی سخت، مجالس بھی شروع

Muharram

Muharram

کراچی (جیوڈیسک) پاکستان میں پیر سے محرم کا آغاز ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی مجالس کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا ہے پیر کو ہی پہلی مرکزی مجلس نشتر پارک کراچی میں ہوئی جس سے معروف ذاکر طالب جوہری نے خطاب کیا جبکہ شہر بھر کی تمام چھوٹی بڑی امام بارگاہوں میں بھی مجالس منعقد ہوئیں۔

حالیہ کچھ سالوں سے محرم بہت سے خدشات کا باعث بن رہا ہے۔ ایک جانب دہشت گردی کا خطرہ محرم میں بڑھ جاتا ہے تو دوسری جانب فرقہ ورانہ فسادات میں بھی تیزی نوٹ کی جاتی رہی ہے۔

ماضی میں ماتمی جلوسوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اس لئے بھی محرم کے آغاز کے ساتھ ہی فول پروف سیکورٹی کے انتظامات کو حتمی شکل دے دی جاتی ہے۔

پیر کو بھی باقاعدہ سیکورٹی پلانز کے تحت کراچی سمیت سندھ بھر میں سیکورٹی انتظامات انتہائی سخت کردیئے گئے۔ مساجد اور امام بارگاہوں کو جانے والے تمام راستے مخصوص کردیئے گئے ہیں۔ پولیس، انٹیلی جنس اداروں اور پولیس کے اہلکاروں کا گشت بڑھا دیا گیا ہے، جبکہ مساجد اور امام بارگاہوں کی اپنی سیکورٹی کے لئے رضاکار اور اسکاؤٹس ہر آنے اور جانے والے پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی جامع تلاشی بھی لے رہے ہیں۔

محرم کے حوالے سے سندھ حکومت نے انتہائی سخت سیکورٹی پلان ترتیب دیا ہے، تاکہ کسی بھی ناخوشگووار واقعے سے نمٹا جاسکے ۔ ان پلانز کو صوبائی حکومت نے سیکورٹی اداروں کی سفارشات پرترتیب دیا ہے جس کے تحت آٹھ سے دس محرم تک موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی رہے گی، جبکہ دس محرم کو موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

سندھ کے چھ شہروں کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہےجن میں کراچی، حیدر آباد، سکھر، خیر پور، شکار پور اور جیکب آباد شامل ہیں۔

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ محرم کی سیکورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم اجلاس بھی منعقد کرچکے ہیں جن میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ مجالس اور جلوسوں کو پولیس اور رینجرز کی سیکورٹی حاصل رہے گی جبکہ ضرورتاً فوج سے بھی مدد لی جا سکے گی۔

آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی ہدایت پر صوبے بھر میں امن و امان کی صورتحال کے لئے 65 ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔ اہم اور حساس علاقوں میں پیٹرولنگ بڑھا دی گئی ہے، جبکہ پیر کو اورنگی ٹاؤن اور دیگر علاقوں میں فلیگ مارچ بھی ہوا۔

اے آئی جی آپریشنز سندھ شیراز نذیر کے مطابق یکم سے 10 محرم تک سندھ بھر میں بارہ ہزار چھ سو ترانوے مجالس ہوںگی۔ چار ہزار ایک سو باون ماتمی جلوس اور ایک ہزار اکیاون تعزیئے کے جلوس برآمد ہوں گے۔

سندھ میں امام بارگاہوں کی تعداد مجموعی طور پر 1765 ہے جن کی حفاطت کے لئے 67 ہزار 4 سو 25 پولیس اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔