تحریر : محمود حیدر انڈین سرجیکل سٹرائیک کا شور تھمنے کا نام نہیں لے رہا کیونکہ انڈین میڈیا شائد طے کرچکا ہے کہ انڈیا پاکستان کی جنگ ضروری ہے خیر ایک کام ہوا انڈیا کے ہمنواوءں نے کشمیر میں سرجیکل سٹرائیک کا مطلب انڈیا کو ایک باشعور قوم منوا ہی لیا تھا، گاہے گاہے ہمارے بیشتر قلمکار انڈیا کی مثالیں دیکر پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہے لیکن اڈین قوم نے اس بار تو اپنا سارا کریکٹر اگل کے رکھ دیا اور دنیا کو اس کا اصلی چہرہ دیکھنے میں زرا دیر نہیں لگی،ایک برطانوی ویب سائیٹ میں چھپے کالم کے فقرے نے مجھے ہلا کر رکھ دیا’’ کشمیر میں سرجیکل سٹرائیک کا مطلب کشمیری بچے کی آنکھوں میں چھرے داغنا ہے‘‘پھر ایک نوجوان کی موت ہوگئی۔
بڈگام کے چک کاووسہ کا 22 سالہ مظفر پنڈت جو دو ہفتے پہلے، چھرّوں سے زخمی ہو گیا تھا چل بسا۔ مظفر عید کے تیسرے دن ظہر کی نماز پڑھ کر ایک ہمسائے کی دکان پر بیٹھا تھا کہ اس پر چھرّوں والا کارتوس داغا گیا۔اس کے دو آپریشن ہوئے مگر خون میں انفیکشن ہوگیا اور لاکھ کوشش کے باوجود اس کی جان نہ بچ پائی۔ صبح جب اس نے اپنی آخری سانس لی یا اس دن جب اس پر فائرنگ کی گئی۔
کیا وہ اس دن مارا گیا جب کشمیر میں افسپا لگا جس کی وجہ سے فوجیوں کو کشمیری کو ہلاک کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی ہے؟ یا مظفر پنڈت اس دن مارا گیا جب سیاستدانوں نے اپنا ضمیر بیچ دیا تھا؟ یا پھر اس دن جب ہماری علاقائی حکومت نے اپنا اختیار قابض حکومت کے حوالے کیا؟سچ تو یہ ہے کہ مظفر پنڈت کی موت ان سب مواقع پر ہوئی ہے۔ مظفر پنڈت کے ساتھ ہم سب کا کوئی نہ کوئی حصہ بھی ان تمام مواقع پر مر جاتا ہے۔آج اس آزادی کی لہر کو 87 سے زیادہ دن ہوگئے ہیں۔
Kashmir Violence
اس دوران کشمیر میں 90 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں جن میں بوڑھے، جوان، بچے اور عورتیں سب شامل ہیں۔ تقریباً 14 ہزار زخمی ہیں اور 500 سے زیادہ کی بینائی چلی گئی ہے۔ اس کے علاوہ چھ ہزار سے زیادہ گرفتار کیے گئے ہیں اور ان اعداد میں ہر روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔آج کل ہندوستان اور پاکستان کے درمیان باتوں کی تیز جنگ چل رہی ہے جو ہر روز اخباروں کی سرخیوں اور ٹی وی کے مباحثوں میں زوروشور سے لڑی جا رہی ہے مگر اصل جنگ تو یہاں کشمیر میں ہو رہی ہے۔ اس جنگ میں ‘سرجیکل سٹرائیک’ کا مطلب ہے کہ بچے کی آنکھوں کو نشانہ بنا کر چھرّے داغے گئے۔
اس جنگ کے جنگی قانون افسپا اور پی ایس اے ہیں۔ اس جنگ میں گولیوں اور چھّروں کے علاوہ بھی اور بہت سے ہتھیار ہیں جس میں لکڑی اور لوہے کے ڈنڈے بھی شامل ہیں۔ اس جنگ کا نشانہ ہم لوگ ہیں، ہمارے گھر ہیں جنھیں ہندوستانی فوج گھس کر تہس نہس کر دیتی ہے۔ ہمارے کھیتوں کی کھڑی فصلیں ہیں جو جلائی جا رہی ہیں۔ ہمارے گھروں کی کھڑکیاں اور شیشے ہیں جو ڈنڈوں اور پتھروں سے توڑے جا رہے ہیں۔
ہمارے عمر رسیدہ بزرگ ہیں جو فوجیوں کی دہشت سے دل کے دوروں کا شکار ہوتے ہیں۔ ہماری عورتیں ہیں جو فوجیوں کی بری نظر کا شکار ہو رہی ہیں۔ مگر یہ جنگ خاموشی سے لڑی جا رہی ہے۔ اس میں آپ کو چیختے ہوئے ٹی وی اینکر دکھائی نہیں دیں گے۔ یہ جنگ آپ کی ٹی وی سکرینز پر نہیں ہمارے گھروں، گلیوں اور محلوں میں چل رہی ہے۔یہ ایک کشمیری عورت کے تاثرات ہیں۔