تحریر : رشید احمد نعیم حضرت بابا فرید الدِین گنج شکر کا شمار برصغیر کی عظیم روحانی شخصیات میں ہوتا ہے۔آپ کا اسم ِ گرامی مسعود ہے ۔فریدالدین آپ کا لقب ہے مگر زیادہ مشہور لقب گنج شکر ہے۔البتہ آپ کے عقیدت مندوں کی اکثریت آپ کو بابا فرید کے نام سے یاد کرتی ہے ۔آپ کی ولادت 29 شعبان کو 569 ہجری میں قصبہ کھوتوال میں ہوئی۔ آپ کی ولادت کے چند سال بعد ہی آپ کے والد ِ گرامی وفات پاگئے۔ آپ کی پرورش اورتعلیم وتربیت آپ کی والدہ ماجدہ نے کی جونہایت نیک و پرہیزگار خاتون تھیں۔آپ کی والدہ آپ کو ابتدائی تعلیم کے لیے ملتان لے آئیں۔اس وقت آپ کی عمر بارہ سال تھی۔ان دنوںملتان کا شمار علم و فضل کے عظیم ترین مراکز میں ہوتا تھا۔ملتان میں سب سے پہلے آپ نے قرآن مجید فرقان حمید حفظ کیا پھر مروجہ نصاب کی تعلیم حاصل کی،آپ تعلیم کے ساتھ ساتھ عبادت وریاضیت میں بھی مشغول رہتے تھے۔
ملتان میں چھے سال قیام کیا۔ایک دن آپ مسجد میں کتابوں میں مطالعہ کرنے میں مصروف تھے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اس مسجد میں تشریف لائے۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے پوچھا کیا پڑھ رہے ہو ؟اور اس کتاب کے پڑھنے سے تمہیں کیا فائدہ ہو گا ؟حضرت بابا فرید الدین نے نہایت احترام سے جواب دیا کہ آپ کی نظر ِسعادت سے فائدہ ہو گا۔انھوں نے آپ کو اپنے مریدوں میں شامل کر لیا۔اس وقت آپ کی عمر پندرہ سال تھی۔آپ کے مرشدنے فرمایا کہ کچھ عرصہ ملتان میں قیام کے بعدعلوم ظاہری کے حصول اور ممالک اسلامیہ کی سیر و سیاحت کے لیے سفر کروحضرت بابا فریدالدین حصول علم کے لیے بغداد ،بلخ،بخارا،بیت المقدس،مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ بھی گئے۔
آپ تین سال تک حرمین شریفین میں رہے۔اس کے بعد آپ والدہ کی قدم بوسی کے لیے کھوتوال آئے اور پھر دہلی چلے گئے۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے آپ کی آمد پر بہت مسرت کا اظہار کیا۔حضرت بابا فریدالدین مہینے میں صرف دو بار اپنے مرشد کی خدمت میں حاضری دیتے تھے اور باقی دن ان کے حکم کے مطابق عبادت و ریاضت میں گزارتے تھے ۔آپ کی عبادت و ریاضت کے فیوض و برکات دیکھ کر معروف بزرگ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری جو آپ کے مرشد کے بھی مرشد ہیں نے فرمایا تھا کہ یہ ایک ایسی شمع ہے جس سے خانوادہ ء درویشاں منور ہو جائے گا اور آپ کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔
Hazrat Baba Fareed Tomb
آپ نے تبلیغ دین کے لیے اجودھن کو منتخب فرمایا۔ اجودھن کا موجودہ نام پاک پتن ہے۔ اس وقت اس شہر میں بُت پرستوں کی اکثریت تھی۔ آپ نے وہیں مستقل قیام کرنے کا فیصلہ کیا اور لوگوں کو علوم ِ ظاہری وباطنی سکھانے میں مصروف ہو گئے۔ ایک دن آپ دریا کے کنارے وضو کر رہے تھے ، کسی مرید نے کہا کہ حضرت جی ! دریا کا یہ پتن پاک نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں یہ پاک پتن ہے، اس کے بعد اس جگہ کا نام پاک پتن مشہور ہو گیا۔ اس شہر میں آپ کی آمد اہل ِ علاقہ کے لیے نہایت مبارک ثابت ہوئی۔ویاں ایک جوگی نے لوگوں کو توہم پرستی میں مبتلا کر رکھا تھا اور طرح طرح کے جادو کر کے ان کو گمراہ کرتا تھا ۔ آپ کی تبلیغ سے نہ صرف وہ خود مسلمان ہو گیا بلکہ دیگر کئی لوگ بھی حلقہ ِ اسلام میں داخل ہو گئے ۔ آپ نے ساری زندگی اسی علاقے میں کے لوگوں کو دین ِ اسلام کی طرف متوجہ کرنے میں گزار دی۔
آپ کی تعلیمات آج بھی لوگوں کے قلوب و اذہان کو منور کرتی ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ عزت وشان عدل و انصاف میں ہے۔ہنر اگر بے عزتی سے ملے تو بھی حاصل کرو۔ اس بات کی کوشش کرو کہ مر کر بھی زندہ ہو جائو ۔ دل کو شیطان کاکھیل نہ بنائو۔ سب سے بڑا محتاج وہ ہے جس نے قناعت ترک کی۔ حضرت بابا فریدالدین نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اورحضرت محمد ۖ کے طریقے کی پیروی کرنے کی دعوت دی۔ انسانیت سے محبت اور سماجی بھلائی کا سبق و درس دیا۔آپ نے اپنے کلام کے ذریعے لوگوں کو دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی پائیدارزندگی کا تصور دیا۔حضرت بابا فریدالدین نے 5 محرم الحرام664 ہجری کو وفات پائی۔ وفات کے وقت آپ کی عمر پچانوے برس تھی۔
آپ کی نماز جنازہ مولانا بدرالدین اسحاق نے پڑھائی۔بزرگان ِ دین کی زندگی ہم سب کے لیے مشعل ِ راہ ہے تاکہ اس راہ پر چل کر ہم دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیں،آپ کا مزار شریف پاک پتن میں ہے۔ آپ کا عرس شریف یکم محرم الحرام سے شروح ہوتا ہے جہاں آج بھی آپ کے لاکھوں مریدین و عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔
Rasheed Ahmad Naeem
تحریر : رشید احمد نعیم ممبر کالمسٹ کونسل آف پاکستان چیف ایگزیکٹو حبیب آباد پریس کلب( پتوکی) 03014033622 rasheed03014033622@gmail.com