انقرہ (جیوڈیسک) ترکی کے نائب وزیراعظم نعمان قرطولمس نے واضح کیا ہے کہ ان کا ملک عراق میں ایک قابض قوت نہیں بننا چاہتا ہے اور ترک فوج کی موجودگی کا مقصد اس جنگ زدہ اور منقسم ملک میں استحکام لانا ہے۔
انھوں نے بدھ کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”عراقی کردستان کے صدر مسعود بارزانی کی درخواست پر ترک فورسز کو بعشیقہ کیمپ میں بھیجا گیا تھا اور وہ وہاں مقامی فورسز کی تربیت کے لیے موجود ہیں۔ترکی اس معاملے کو موضوع بحث نہیں بننے دے گا”۔
عراق میں ترک فوجیوں کی موجودگی کے معاملے پر دونوں ملکوں میں کشیدگی پائی جارہی ہے اور آج دونوں نے ایک دوسرے کے سفیر کو طلب کیا ہے۔عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے ترکی کو خبردادر کیا ہے کہ اگر وہ عراقی سرزمین پر اپنے فوجیوں کی تعیناتی برقرار رکھنے پر اصرار کرتا ہے تو اس سے علاقائی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
بغداد میں عراق کی وزارت خارجہ نے ترک سفیر کو طلب کیا ہے اور ان سے ترک وزیراعظم بن علی یلدرم کے مبینہ اشتعال انگیز بیان پر احتجاج کیا ہے۔انھوں نے عراق کے شمالی شہر موصل سے داعش کو بے دخل کرنے کے لیے ایک مشترکہ آپریشن کی بات کی تھی۔
انھوں نے حکمراں جماعت آق کے ارکان پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر موصل کے ارد گرد سنی اکثریتی علاقے کو داعش مخالف آپریشن کی کامیابی کے بعد شیعہ ملیشیاؤں کے کنٹرول میں دے دیا جاتا ہے تو اس سے شیعہ سنی کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔
تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا شیعہ ملیشیائیں موصل میں داعش کے خلاف لڑائی میں شریک ہوں گی یا نہیں۔قبل ازیں ایران کی حمایت اور تربیت یافتہ شیعہ ملیشیاؤں نے داعش کو مغربی صوبے الانبار سے بے دخل کرنے کے لیے عراقی فوج کے شانہ بشانہ لڑائی میں حصہ لیا تھا۔
واضح رہے کہ ترکی نے گذشتہ سال کے آخر میں موصل کے شمال مشرق میں واقع علاقے باشیقہ میں اپنے فوجیوں کو عراق کی منظوری کے بغیر بھیج دیا تھا۔تب سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پائی جارہی ہے۔ ترک فوجی داعش مخالف جنگجوؤں اور خاص طور پر کرد فورسز کو تربیت دے رہے ہیں۔ بغداد حکومت نے ترک فوجیوں کی تعیناتی کو عراق کی خود مختاری کی ننگی خلاف ورزی قرار دیا تھا اور ترکی سے ان کے انخلاء کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس نے اس کو مسترد کردیا تھا۔
ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے صدر رجب طیب ایردوآن کی ایک روز قبل پارلیمان میں تقریر کا اعادہ کیا ہے۔اس میں انھوں نے موصل میں داعش کے خلاف جنگ میں حصہ لینے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا جبکہ پارلیمان نے عراق اور شام میں موجود ترک فوجیوں کی تعیناتی کی مدت میں ایک سال کی توسیع کی منظوری دے دی تھی۔
عراقی پارلیمان نے منگل کے روز ایک قرارداد کے ذریعے ترک فوجیوں کی تعیناتی میں توسیع کی مذمت کی تھی اور حکومت سے کہا تھا کہ وہ ان کو قابض فورسز قرار دے۔بعد میں حیدر العبادی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترک فوجیوں کی عراقی سرزمین پر موجودگی ایک چیلنج کی حییت رکھتی ہے اور انقرہ کا اصرار ایک علاقائی جنگ کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔
ادھر انقرہ میں تعینات عراقی سفیر کو طلب کرکے ان سے اس قرارداد پر احتجاج کیا گیا ہے۔ترک وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”ترکی عراق میں عدم استحکام سے جنم لینے والے دہشت گردی کے خطرات کا سامنا کرتا رہا ہے۔وہ عراق کی علاقائی سالمیت ،استحکام اور سلامتی کی بھرپور حمایت کرتا ہے”۔