تحریر : غلام رضا بھارتی جارحیت کیخلاف ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہے سوائے عمران خان کے۔ وزیراعظم قوم کو متحد جبکہ عمران خان قوم کو تقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں،خان صاحب کو اور کچھ نہیں تو بلاول بھٹو سے ہی صرف اتنا سیکھ لینا چاہئے کہ سب سے پہلے قومی سلامتی ہوتی ہے مگر خان صاحب پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتے ہیں۔کل کو اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر مذاکرات ہوتے ہیں اور امید پیدا ہوتی ہے کہ کشمیر آزاد ہوجائے گا قوی امکان ہے تب بھی عمران خان کہیں گے کہ نواز شریف کشمیر کو بعد میں آزاد کرائے پہلے پانامہ کا حساب دے۔
شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک اجلاس میں شریک ہوں تو پارلیمنٹ بھی جمہوری وزیراعظم بھی جائز مگر اچانک ایک دن بعد کیا ایسی تبدیلی آتی ہے کہ سب کچھ ناجائز اور دو نمبر ہو جاتا ہے۔عمران خان کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے،ایسے شخص کی مذمت نہیں بلکہ مرمت ہونی چاہئے جو بھارت کو جواب دینے کی بجائے اپنی ہی دو اینٹ کی مسجد بنا لے،پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے ایک روز قبل تحریک انصاف کے اجلاس میں اکثریت کی یہی رائے تھی کہ ہمیں پارلیمنٹ جانا چاہئے بھارت کو بھرپور جواب جائے گا مگر خان صاحب نے ڈکیٹرانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اکثریت کے فیصلے کو ویٹو کر دیا۔عمران خان کے فیصلے سے صرف اور صرف ایک شخص خوش ہوا ہوگا جس کا نام نریندر مودی ہے،پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نواز شریف کی حمایت نہیں کی گئی بلکہ کشمیر کا مسئلے اور بھارتی جارحیت پر بات کی گئی،مزے کی بات یہ ہے اجلاس بھی اپوزیشن کے کہنے پر ہی بلایا گیا اور جب اجلاس کی تاریخ طے پائی تو عمران خان کا کہنا تھا کہ ہر صورت اجلاس میں شرکت کر کے بھارت کو بھرپور جواب دینگے مگر ایک بار پھر یوٹرن لے لیا گیا۔
Indian Aggression in Kashmir
پرویز خٹک وزیراعظم کے گھر گئے شاہ محمود قریشی اے پی سی میں گئے اور مسئلہ کشمیر اور قومی سلامتی کے حوالے سے اچھا موقف پیش کیا مگر مشترکہ اجلاس سے غیر حاضری تحریک انصاف کو لے ڈوبے گی۔بھارتی مظالم کئی دہائیوں سے کشمیر سے میں جاری ہیں،بھارتی فوجی درندے بچہ دیکھتے ہیں نہ خاتون بس مارپیٹ کرتے ہیں،آر ایس ایس کا دہشت گرد ونگ کشمیریوں کا قتل عام کر رہا ہے کشمیریوں کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ پیلٹ گن سے معصوم بچوں کے جسم چھلنی کئے جارہے ہیں، خواتین کی عصمت دری کا سلسلہ بھی جار ی ہے، بھارت پاکستان پر جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے تاکہ مسئلہ کشمیر دنیا کی نظروں سے اوجھل کیا جا سکے۔مگر خان صاحب کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ کشمیر کتنا سنجیدہ معاملہ ہے۔
وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کشمیر اور بھارتی جارحیت پر کھل کر بات کی اور اس پر وہ مبارکباد کے بھی مستحق ہیں،مسئلہ کشمیر آتش فشاں کی طرح سلگ رہاہے،چہرے مسخ کر نے اور بینائی محروم کر نے سے آزادی کی تحریک کو کچلا نہیں جاسکتا ، اب اقوام متحدہ کو عالمی امن کے محافظ کے طور پر اپنی ساکھ برقرار رکھنا ہوگی ، کشمیریوں پر عائد سفری پابندیاں ختم ہونی چاہئیں،کھیتوں میں ٹینک چلانے سے غربت ختم نہیں ہوسکتی ، 7لاکھ بھارتی فوج کے مظالم کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے عوام کے جذبہ حریت کو کچلا نہیں جاسکتا، ظلم کے ہر وار کیساتھ جذبہ آزادی کا عزم پختہ ہو رہا ہے، 6دہائیوں سے کشمیریوں کو غلام بنائے رکھنے کے حربوں کے باوجود اپنے حقوق کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے والے سرفروشوں کا قافلہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے،آزادی کے کارواں کی قیادت کشمیریوں کی نوجوان نسل نے سنبھال لی ہے،برہان وانی کی شہادت کشمیریوں کی تحریک کو ایک فیصلہ کن موڑ تک لے آئی ہے کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے کر اقوام متحدہ ہی نہیں عالمی برادری کا بھی مذاق اڑایا جا رہا ہے۔
Imran Khan
عمران خان کا فرمان ہے کہ پارلیمنٹ میں تب تک نہیں جائینگے جب تک وزیراعظم خود کو احتساب کیلئے پیش نہیں کر دیتے یا پھر استعفیٰ نہ دے دیںمگر موصوف نے یہ نہیں بتایا تنخواہیں لیتے رہیں گے یا نہیں اور جس پارلیمنٹ کی ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے اس سے استعفے بھی نہیں دے رہے نہ جانے خان صاحب کب تک یہ دوغلی پالیسی کھیلتے رہیں گے،عمران خان سے تو اچھا بلاول بھٹو کھیل رہے ہیں اور اگر بلاول مزید ایکٹو ہو گئے تو آئندہ الیکشن میں مقابلہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہی ہوگا عمران خان کا نام و نشان ختم ہو کر رہ جائیگا اور ان کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں رہے گا۔آخر میں صرف اتنا کہنا چاہونگا کہ سب سے پہلے ملک ہوتا ہے ملک سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا،پاکستان ہوگا تو عمران خان سیاست کر سکیں گے،زکوةاور کھالیں اکھٹی کر سکیں گے،کسی کے جہاز اور خرچے پر سیر سپاٹے کر سکیں گے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خورشید شاہ کا خطاب بھی قابل تعریف تھا حکومتی پالیسیوں سے اختلاف بھی کیا مگر مسئلہ کشمیر پر حکومت کی کھل کر حمایت کی،عمران خان کو بھی رگڑا لگایا،بلاول بھی گرجے اور برسے مگر یہ سب جمہوریت کا حسن ہی ہے،حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نوک جھونک چلتی رہتی ہے اور چلتی رہنی چاہئے مگر جمہوری روایات کے اندر رہتے ہوئے،عمران خان کو شاید جمہوریت کی الف ب تک کا علم نہیں اسی لئے پارلیمنٹ،نیب سمیت کسی ادارے کو نہیں مانتے کسی کا اقدام پسند نہ آ ئے تو کہہ دیتے ہیں بک گیا اس کی بولی لگ گئی ،حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ،جمہوریت میں پارلیمنٹ کے اندر آئینی ترامیم سے اصلاحات کی جاتی رہتی ہیں۔خیر خان صاحب کو زیادہ کیا کہنا وہ تو ہیں ہی کنگ آف یوٹرن،اللہ انہیں ہدایت دے۔