والدین کے نام اہم پیغام

Training

Training

تحریر: افضال احمد
”تربیت” عربی کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ”کسی چیز کو اس کے ابتدائی مراحل سے انتہا تک پہنچانا اور ان تمام مراحل میں اس کی تمام ضرورتیں پوری کرنا” اب بچہ کی پیدائش سے لے کر موت تک زندگی گزارنے میں جو جو مراحل پیش آتے ہیں ان تمام میں بچے کی پوری رہنمائی و تربیت کرنے کا نام تربیت ہے۔ آج بچہ ہے اس وقت کی ضرورتیں اور اس موقع کی مناسبت سے اس کی تربیت الگ ہے کل عمر کی ترقی کے ساتھ بڑھتی ہوئی نئی نئی ذمہ داریاں اور نئے نئے تربیتی باب کھلتے چلے جاتے ہیں اسی طرح تعلیمی مراحل کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھا جاتا ہے پھر شادی اور اس سے شروع ہونے والی نئی ذمہ داریاں غرض ان تمام ذمہ داریوں کو صحیح تعلیم و تربیت کے ساتھ پورا کرنا والدین کی پہلی ذمہ داری ہے۔ بچہ کو ان سارے کاموں کے طریقہ سکھانا پھر ان پر عمل کرانا پھر اس طریقہ پر عمل کرنے کی عادت بنانا ایک دیر طلب صبر آزما اور مستقل محنت طلب کام ہے۔

حضرت امام غزالی فرماتے ہیں کہ ماں کی گود بچے کیلئے ابتدائی مکتب ہے اگر اس مکتب میں اس کی اچھی تربیت ہوئی تو پھر آخر تک اس کی اسی طرز پر تعلیم و تربیت ہوتی رہتی ہے اور اگر خدانخواستہ بچپن ہی سے بری صحبت اور غلط تربیت ہوئی تو بہت مشکل ہے کہ پھر آئندہ اس کی اصلاح ہو سکے۔ فرماتے ہیں بچہ پیدا ہوتے ساتھ ہی تربیت کے قابل ہوتا ہے عموماً سمجھا جاتا ہے کہ جب بچہ چار یا پانچ سال کا ہو گا اس وقت اس کی تربیت کا وقت ہو گا مگر یہ صحیح نہیں جبکہ اس سے پہلے بھی اس کے سامنے کوئی برا کلمہ نہیں کہنا چاہئے اور نہ ہی کوئی برا انداز ان کے سامنے اختیار کرنا چاہئے۔ امام غزالی نے لکھا ہے کہ ایک والدین نے طے کیا کہ امید کے ان دنوں میں کوئی گناہ نہیں کریں گے تا کہ بچے پر اس کا غلط اثر مرتب نہ ہو چنانچہ بچہ پیدا ہوا اس کے بعد بھی اس کی نگرانی کی گئی ایک دن دیکھا کہ اس نے پڑوس کی ایک کھجور اٹھا کر چپ چاپ کھا لی اس کو دیکھ کر والدین کو بہت افسوس ہوا آخر کار بات یہ کھلی کہ امید کے دنوں میں ایک دن اس کی ناں کو بہت سخت بھوک لگ رہی تھی اور کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا تو پڑوس کے گھر کے درخت کی شاخ جو اس کے گھر آئی ہوئی تھی اس میں سے اس نے ایک کھجور چپ چاپ کھا لی تھی جس کا اثر بعد میں بچے پر بھی ہوا۔

حضرت امام رازی فرماتے ہیں کہ مائوں کو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں سب سے پہلے یہ خیال رکھنا چاہئے کہ یہ بچے صرف ان کے ہی نہیں بلکہ قوم کے ہیں۔اگر ان کی تعلیم و تربیت میں کسی قسم کی کوئی خرابی ہوئی تو پوری قوم کے ساتھ انتہائی بے ایمانی اور پوری قوم کے ساتھ غداری ہو گی اور یہ ایسی خیانت ہو گی کہ اس کا کوئی بدلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ بچوں کو شروع سے ہی عقائد’ عبادات’ حسن معاشرت’ اخلاق’ حسن عمل’ حسن سلوک کی عادت ڈالنی چاہئے تا کہ وہ بڑے ہو کر اپنی قوم کا سچا رہبر بن سکیں۔

Train a Child

Train a Child

علامہ ابن خلدون فرماتے ہیں کہ بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت اور ان کی دماغی اور ذہنی صلاحیتوں کی حفاظت اس قدر ضروری ہے کہ اتنی اور کوئی چیز ضروری نہیں جس وجہ سے مسلمان عورت (ماں) اپنے بچے کی تعلیم و تربیت میں دن رات مشغول رہتی ہے۔ وہ اس لئے بچوں کی تربیت نہیں کرتی کہ وہ بچہ بڑھاپے میں ان کے کام آسکے گا بلکہ ان کی تربیت اور ان کی محنت و مشقت کا مقصد ہی صرف یہ ہوتا ہے کہ یہ بچے قوم کی امانت ہیں اور ان کی صحیح تربیت کرکے قوم کے سپرد کرنا ہے۔ اسی مقصد کے پیش نظر اگر ہمارے یہاں کے بچوں کا دوسرے اقوام کے ساتھ مقابلہ کیا جائے تو ان میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیائ فرماتے ہیں کہ میری والدہ کا معمول تھا کہ جس دن ہمارے گھر میں کچھ پکانے کو نہ ہوتا تو والدہ فرماتیں کہ آج ہم سب اللہ کے مہمان ہیں مجھے یہ بات سن کر بہت مزہ آتا ایک دن ایک شخص بہت سا غلہ ہمارے گھر دے گیا جس کی وجہ سے چند دنوں تک مسلسل روٹی پکتی رہی مگر مجھ کو تمنا تھی کہ والدہ جو فرماتی تھیں کہ ہم اللہ کے مہمان ہیں وہ کب آئے گا آخرایک دن جب وہ غلہ ختم ہو گیا تو والدہ نے کہا کہ سب خدا کے مہمان ہیں یہ سن کر مجھے ایسا ذوق و سرور حاصل ہوا کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔

گھر کا ماحول عورتوں سے ہی بنتا ہے ہمارا پورا نظام معاشرت بلکہ زندگی و نظام مذہبی بھی اس کے بغیر نہیں چل سکتا کہ بیبیاں اور بچیاں بھی اسلام سے واقف ہوں اور گھر میں جو کچھ ماحول ہوتا ہے وہ تو بیویوں اور بیٹیوں ہی کا ساختہ پرداختہ ہے۔ اگر گھر کے اندر اسلامی فضا نہیں ہے’ دینی تعلیمات نہیں ہیں’ اسلامی اخلاق نہیں ہیں تو پھر اس نسل کی اسلامی پرورش ہو ہی نہیں سکتی۔اس لئے ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ اس کا ہمیشہ اہتمام رکھا گیا اور امت کا طبقہ نسواں بھی ہمیشہ نہ صرف یہ کہ علم سے واقف بلکہ علم پھیلانے والا بھی رہا اور تذکرہ کی کتابوں میں ایسی بیویوں کے نام ملتے ہیں جو بڑی فاضلہ عالمہ تھیں اور جن کی وجہ سے خاندان کے خاندان بلکہ اس زمانہ میں ملت کا پورا حصہ دین سے واقف تھا اور دین پر کاربند تھا۔

Women

Women

ان کے کارنامے آپ دیکھیں بلکہ بعض خاندانوں کا ایمان بچایا ہے مستورات نے کہ انہوں نے شروع سے بچیوں کی ایسی تربیت کی اور اسلامی اور دینی غیرت کا اظہار کیا اور نقش کر دیا اور سچ پوچھئے تو دل کی بھٹی میں دل کی خاک میں اور دل کے کشت زار میں تخم مائیں ڈال سکتی ہیں اور تخم جب پک جاتا ہے تو پھر اس کو حکومتیں بھی نہیں اکھاڑ سکتی ہیں اور اس کی ہزار ہا مثالیں ہیں کہ ماں اور بہنوں سے پڑھا ہوا سبق ‘ ان سے سیکھا ہوا دین’ ان کا بیدار کیا ہوا جذبہ بڑے بڑے لوگوں کی استقامت اور ان کی ثابت قدمی کا ذریعہ بنا اور اگر آپ ان کی تحقیق کریں اور ذرا ریسرچ سے سراغ رسانی سے کام لیں تو معلوم ہو گا کہ اصل جو اس میں ثبات و استقامت اور جذبہ پیدا ہوا ہے وہ ماں کا پیدا کیا ہوا ہے۔

کثرت سے مثالیں ہیں کہ بڑے بڑے چوٹی کے بادشاہ اسلام میں ایسے گزرے ہیں جن پر سب سے زیادہ ان کی مائوں کا اثر پڑا ہے اور ان کی مائوں نے ان کو اخیر تک اسلام پر قائم رہنے کی ہمت اور حوصلہ دیا ہے اور اس کے لئے مستقل کتابیں ہیں اور ہماری تاریخ می مستورات کے طبقہ کی مستقل کتابیں ہیں کہ بعض اوقات انہوں نے اللہ کے راستے میں جان دینے پر آمادہ کیا اور اپنے لخت ہائے جگر کو انہوں نے خطرے میں ڈالا ان کی ہمت بڑھائی بلکہ ان میں غیرت پیدا کی کہ دین کیلئے کیوں کام نہیں کرتے ہو؟

اب اگر ہم آج کل کے معاشرے کو دیکھیں تو ماں بیٹا، باپ بیٹی، بہن بھائی سب مل کر ٹی وی پر ایسے ایسے پروگرام دیکھتے ہیں جو دیکھنے کے نہیں ہوتے تو کیا خاک ترقی پر ہیں ہم؟ آج کل کے والدین نماز سے زیادہ انگریز کی دی ہوئی ڈگریوں کی طرف راغب کرتے ہیں اپنے بچوں کو ٹھیک ہے میں مانتا ہوں دنیاوی تعلیم بہت ضروری ہے لیکن آخرت کی تیاری بھی تو ساتھ کرو۔ جس باقاعدگی سے اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکولوں میں تیار کر کے بھیجتے ہو اسی باقاعدگی سے بچوں کو مسجد میں بھی نماز کے لئے بھیجا کرو یقین کرو انگریز ہمارے دین سے بہت متاثر ہے لیکن اکڑ بازی میں مر رہا ہے انگریز اور مسلمانوں کو بھی اپنی انگلش کتابوں کے پیچھے لگا لیا ہے دن رات بچے انگلش کتابیں تو بہت غور سے پڑھتے ہیں لیکن قرآن پڑھنے کے لئے دو منٹ بھی نہیں۔ والدین بھی ہوش کریں اور بچے خود بھی ہوش کریں۔

Wedding

Wedding

شادی صرف دو انسانوں مرد و عورت کے ملاپ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ بندھن ہے جس سے ان دونوں کی آزاد زندگی پر نکاح کی بیڑیاں لگنے سے ایک ذمہ داریوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو ان کی موت تک چلتا ہے اور روز بروز ان ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتارہتا ہے۔ شادی سے پہلے دونوں میاں بیوی آزاد ہوتے ہیں لیکن شادی کے بعد دونوں پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ شوہر پر بیوی کی تمام تر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اسی طرح بیوی پر شوہر کو خوش رکھنے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ابھی یہ دونوں اپنے اپنے حقوق خوش اسلوبی سے نبھا ہی رہے ہوتے ہیں کہ اولاد ہو جاتی ہے اب ان کی زندگی میں ذمہ داری کے ایک نئے باب کا اضافہ ہوتا ہے یہ ذمہ داری پہلی ذمہ داری سے کچھ اور اہم اور سخت ہوتی ہے اس سے ان کی رہی سہی آزادی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اب ان کی ساری زندگی کی ترتیب بدل جاتی ہے اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے پروگرام کے مطابق ان کی زندگی کے پروگرام طے ہوتے ہیں۔ اگر بچوں کے امتحان ہیں تو کہیں آنا جانا بند ہو جاتا ہے بچے کی طبیعت خراب ہو تو اپنی ساری مشغولیات چھوڑنی پڑتی ہیں۔ ان کی تربیتی نگہداشت سے کوئی لمحہ فارغ نہیں ہوتا ہے کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، بات کرنے بات سننے، بڑوں کا ادب و احترام سکھانے، پڑھنے پڑھانے، اسکول، ٹیوشن غرض ہر ہر کام میں پوری پوری نگرانی کرنی پڑتی ہے کبھی سختی کبھی نرمی کبھی سمجھا بجھا کر پیار و محبت سے کام چلانا پڑتا ہے غرض ہر طرح سے پوری نگہداشت کی ضرورت پڑتی ہے۔ آدمی پر اولاد کی ذمہ داریاں یہاں تک سوار ہو جاتی ہیں کہ آدمی خرچ کرتے ہوئے بھی اپنی اولاد کو سامنے رکھ کر ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔

جب بچے کی تعلیم و تربیت صحیح نہج پر صحیح طریقے سے ہو گی تو یہ کل ایک بہترین صفات کا حامل فرد ہو گا۔ یہ بیٹا ہو گا تو اپنے والدین کا مطیع فرمانبردار ہو گا ان کی رضا جوئی کے حصول کے لئے ہر وقت کوشاں اور ساعی رہے گا ، یہ بھائی ہو گا تو اگر بڑا ہو گا تو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ شفقت محبت کا معاملہ کرے گا اور اگر چھوٹا ہو گا تو بڑوں کے ساتھ ادب و احترام کا معاملہ کرے گا پھر اس کا حسن سلوک اسے اپنے بڑوں کے ادب و احترام اطاعت و فرمانبرداری پر مجبور کرے گا۔ گھر سے باہر جب اسکول میں ہو گا تو اپنے اساتذہ کا ادب و احترام اطاعت و فرمانبرداری کرنے والا ہو گا، اپنے ساتھیوں کے حقوق ادا کرنے والا ہو گا پڑھائی اور کام کاج میں دل لگا کر ان امور کو انجام دینے والا ہو گا، اچھی باتوں کو سیکھنا اور بری باتوں سے بچنا اس کا شعار ہو گا۔ جب یہ اپنے تعلیمی مراحل سے فارغ ہو گا تو معاشرہ کا ایک بہترین فرد ہو گا اور اپنے والدین کی دی ہوئی تربیت پر فخر محسوس کرے گا اور والدین کا نام روشن کرے گا۔ مجھے آپ سب کی دعائوں کی ضرورت ہے اور اس ادارے کو بھی جو میری بات آپ سب تک پہنچا رہا ہے۔ آپ سب لوگ مجھے اپنی سوچ سے آگاہ کیا کریں تا کہ میں آپ کی سوچ اور آپ کے دیئے ہوئے ٹاپک پر بات کر سکوں مجھے آپ اپنی زندگی کے مختلف پہلوئوں سے آگاہ کریں تا کہ میں ان کو اپنی تحریر میں شامل کرکے لوگوں کے لئے اصلاح کا ذریعہ بنا سکوں۔ آئو مل کر خود کو سنواریں اور معاشرے کو تباہی سے بچائیں ۔

Afzaal Ahmad

Afzaal Ahmad

تحریر: افضال احمد