تحریر : علی عمران شاہین ”فضاجنگی اور سول ہیلی کاپٹروں کی گڑگڑاہٹ سے گونج رہی ہے توزمین پر ہزاروں سعودی فوجی اپنی جنگی گاڑیوں کے ساتھ ایک خاص مشن کی تیاری میں مصروف ہیں۔لگتاہے جیسے بہت بڑی فوجی مشقیں جاری ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں’ یہ سب دنیائے اسلام کے سب سے بڑے مذہبی اجتماع حج بیت اللہ کی حفاظت اور تیاریوں کی مشق ہے کہ یہ اجتماع مکمل امن وسلامتی کے ساتھ انعقاد پذیر ہوجائے۔”عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی ورلڈ نے حج کی تیاریوں کے حوالے سے خصوصی رپورٹ نشرکی توساری دنیا کی توجہ اس جانب مبذول ہوگئی کہ سعودی عرب اس بار کس طرح حج انتظامات کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ گزشتہ سال حج کے مبارک موقع پر جو ناخوشگوار واقعہ پیش آیاتھا’ اس واقعہ کا زخم اب تک ہراہے۔ اس واقعہ کے بارے میں اب تک کوئی تحقیقی رپورٹ منظرعام پراس لیے نہیں لائی گئی کہ مبادا مسلم دنیا میں اختلاف’انتشار اورباہمی سرپھٹول کانیاسلسلہ شروع نہ ہو جائے’ وگرنہ سوشل میڈیاپرساری دنیا دیکھ چکی ہے کہ گزشتہ سال کاواقعہ پوری منصوبہ بندی سے کروایا گیا تھا اور اس میں ملوث لوگ تلبیہ پڑھنے کے بجائے کوئی اور نعرے لگارہے تھے اور انہوں نے جان بوجھ کر حفاظتی دیواروں کوتوڑااور بھگدڑ مچائی تھی۔سعودی عرب نے مجرموں کی گرفتاری تک کے باوجود اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیارکی اور سعودی حکومت نے سارازور اس بات پر لگایا کہ اس بارکوئی ایساواقعہ نہ ہو جس سے دشمنوں اور مسلم امہ کے اتحاد کوزک پہنچانے کے لیے مصروف کارقوتوں کو کوئی نیابہانہ ملے۔
سعودی عرب کئی سال سے متعدد محاذوں پر مصروف جنگ ہے ۔یمن اورعراق کی سرحدیں اس کے ساتھ ملتی ہیں جہاں سے ہروقت دشمنوں اور دہشت گردوں کی دراندازی کازبردست خطرہ رہتاہے۔ چہاراطراف سے دشمنوں میں گھرے سعودی عرب کو پرامن رکھنا کسی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ حج وعمرہ اور مقامات مقدسہ کی مکمل حفاظت اور ہرشہری وغیرملکی کوتحفظ وامن مہیاکر دیا جائے تویہ سب سے زیادہ قابل تحسین نہیں تواورکیاہے؟سعودی عرب نے اس بارجہاں حرمین شریفین میں توسیع وسہولیات کے بے مثال منصوبے بڑی حدتک مکمل کیے،وہیں مقامات حج کو بھی ازسرنو خوب خوب دیکھا بھالاگیا۔حجاج کو ہروقت رابطے میں رکھنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کااستعمال کیاگیاجس کے باعث کوئی حاجی گم نہ ہوا۔ جدہ ہوائی اڈہ جہاں روزانہ 8سوتک پروازیں اترتی رہیں’ کواتنی مستعدی کے ساتھ چلایاجاتارہا کہ حجاج کو 2گھنٹے کے اندراندر کلیئر کرکے ان کی منزل کی جانب روانہ کیاجاتا۔
دنیاکی جدید ترین ٹرانسپورٹ انہیں ان کی منازل کی طرف لے جاتی توجگہ جگہ خدام اور سکیورٹی اہلکاران کا استقبال کرتے نظرآتے۔ سعودی سکیورٹی فورسز کو دنیامیں یہ مقام حاصل ہے کہ کئی ملین اور دنیاکے 200 کے قریب ممالک سے آئے لوگوں کو وہ انتہائی پیار ومحبت اور شفقت واپنائیت سے سنبھالتے ہیں۔ان کی زبان نہ بھی آئے توبھی ان کاانداز وپیار ہی سب کوسب کچھ سمجھادیتاہے ۔کسی اہلکارکے ہاتھ میں بندوق توکجا’ ڈنڈا تک نہیں ہوتا اوروہ صرف اشاروں سے سب کچھ کنٹرول کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ان کی تربیت میں شفقت ومحبت جیسے گھٹی کے ساتھ ڈالی گئی ہے۔ دوران حج معذوروں کو سہارادینا ‘خواتین کی مددکرنا’ان کے بچے سنبھالنا’ دودھ پلانا’گرمی سے ستائے حجاج کوچھتریاں ‘ٹھنڈا پانی اور ساتھ ساتھ رہنمائی مہیاکرنااور پھر اپنے چہرے یا حرکات وسکنات سے تھکاوٹ کاتاثرتک نہ دینا،ان کاخاصہ ہے۔ شایددنیانے وہ تصاویراتنی نہ دیکھی ہوں جن میں یہ ہزارہا سعودی اہلکار خدمات حج کے بعد مقامات حج میں جگہ جگہ بغیربسترو ٹھنڈی ہوا بلکہ سائے کے بغیر’ تھکاوٹ اور مسلسل بیداری کے باعث نیند سے چور مدہوش پڑے تھے۔ دوران خدمت تووہ تھکتے دکھائی نہ دیئے لیکن بعدکی حالت نے سب کچھ بتادیاکہ ان پرکیابیتی تھی۔
Khana Kaba
سعودی حکومت نے حرمین شریفین میں حجاج و عازمین عمرہ کے لیے ہر وہ سہولت مہیاکررکھی ہے جس کا انہیں دنیاکے کسی کونے سے کوئی اشارہ بھی مل جائے۔ دنیا بھرکے عالمی دماغ انجینئرز اور ماہرین تعمیرات کی مددسے مقامات حج کو اس قدر وسیع وباسہولت بنایاگیا ہے کہ اب ٹکراؤ بالکل ختم ہی ہوکررہ گیاہے۔ شیطان کو کنکریاں مارنے کے عمل میں سب سے زیادہ حادثات کااحتمال ہوتا تھا لیکن اب اس کاایسانقشہ بنایاگیااور اس پر اربوں ریال خرچ کر کے اسے ایسی شکل دے دی گئی ہے کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ دوران حج کئی ملین لوگوں کوچندلمحوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ اور پھر باربار منتقل کرنا اور کسی کو پیچھے نہ رہنے دیناکہ کسی کے حج میں کوئی نقص نہ رہ جائے’یہ سعودی اہلکاروں کی سب سے بھرپورکوشش ہوتی ہے ۔ حجاج کرام کے لیے جودنیاکی جدیدترین ٹرین سروس شروع کی گئی ہے’ اسے امسال مکمل مفت کردیاگیاتھا۔ یہ سروس سال بھر میں حج کے صرف3دن ہی چلتی ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ جیسے کبھی رکی ہی نہیں’حالانکہ اسے سال بعد ہی چلایاجاتاہے۔سکیورٹی کے لیے کیمروں کادنیاکاسب سے بڑا نیٹ ورک اس باریہاں دیکھنے کوملا۔جسے چلانے کے لیے ہزاروں افسران وکارکنان مصروف عمل تھے۔حج میں خوراک’علاج’ٹرانسپورٹ اور صفائی کے امور سب سے اہم ہوتے ہیں اور بیک وقت 50لاکھ کے لگ بھگ لوگوں کو یہ ساری سہولیات بلا تعطل مہیا کرنا صرف سعودی حکام کاخاصہ ہے۔
سعودی عرب کے مقامی لوگ حجاج کی خدمت کو سب سے بڑی سعادت سمجھتے اور ان پر دل کھول کر مال خرچ کرتے ہیں۔ملک بھر سے میڈیکل ٹیمیں او رعملہ یہیں ڈیرے ڈال دیتاہے اور سبھی عازمین حج کو امسال بھی تمام ترطبی سہولیات چاہے وہ جس قدرمہنگی ہی کیوں نہ ہوں، مکمل مفت مہیاکی گئیں۔ مقامات حج پر شدید گرمی اور حبس کو کنٹرول کرنے کے لیے مصنوعی بارش کا اہتمام اس بار پہلے سے زیادہ بہتر اور وسیع انداز میں کیا گیاتھاجس نے کسی حاجی کو لُوتک نہ لگنے دی۔دنیانے اس بار بھی وہ ایمان افروز مناظر دیکھے کہ سعودی سکیورٹی اہلکار معذور وبیمار عازمین حج کو اپنے کندھوں پراٹھاکر آگے بڑھتے اور ان کی منزل تک پہنچاتے رہے۔ قدم قدم پر رہنمائی مراکز’ہنگامی امدادی مراکز نے اس بار بھی لاکھوں عازمین حج کو دعائیں دینے پرمجبور کیا۔
سعودی حکومت نے ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دنیابھر سے جدید ترین گاڑیاں اور اس حوالے سے ہرطرح کاسامان بھی یہاں جمع کردیاتھا۔ فضامیں بھی سکیورٹی کے لیے ہیلی کاپٹرگشت کرتے دکھائی دیتے تو وہیں زیادہ بیمار عازمین حج کو فوری ہسپتال منتقل کرنے کے لیے بھی ہیلی کاپٹر سروس مہیا کی گئی تھی۔سعودی حکومت کو عازمین حج وعمرہ سے کس قدر عقیدت ہے’ اس کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب نے اس حوالے سے باقاعدہ فورس قائم کر رکھی ہے جو دن رات مصروف کاررہتی ہے۔امسال جیسے ہی حج سیزن کااختتامی مرحلہ شروع ہوا تو سعودی حکومت نے ساتھ ہی اعلان کیا کہ اس بار بلاتاخیرعمرہ سیزن کاآغاز کیاجارہاہے تووہیں اگلے سال کے حج کی تیاریاں بھی ابھی سے شروع کردی گئی ہیں تاکہ عازمین حج کی خدمت وحفاظت کو مزید بہتر سے بہتر کیاجائے۔
Shah Salman Bin Abdulaziz
حج کاپرامن اختتام سعودی حکومت کے لیے بھی انتہائی مسرت کاباعث تھا۔ سعودی حکومت نے اس دفعہ بھی دنیابھر سے ہزاروں مہمانوں کواپنے خرچ پرحج پر بلایا تھا۔ان میں شام اور فلسطین کے مہاجرین اورمظلوم اہل غزہ کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔سربراہ حکومت شاہ سلمان بن عبدالعزیز’نائف بن عبدالعزیز اور شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے خود ہزاروں حجاج سے ملاقاتیں ہی نہیں کیں بلکہ ان سے ہاتھ بھی ملایااور انہیں کھانے کی دعوت پر بھی اپنے ساتھ بلایا۔ حج کی تکمیل پر شاہ سلمان بن عبدالعزیز مکہ مکرمہ سے ریاض پہنچے تووہ انتہائی مسروردکھائی دے رہے تھے’یہ ان کی خوشی ہی نہیں تھی بلکہ دنیابھرسے آئے کئی ملین حجاج کی خوشی تھی جن میں سے کوئی یہ نہیں کہہ رہاتھا کہ اسے کسی قسم کی کوئی تکلیف ہییا اسے کوئی شکایت ہے۔
پاکستان پہنچنے والے کتنے حجاج نے یہ توکہاکہ انہیں ان کے ملک کی جانب سے سعودی عرب میں جن سہولیات کی فراہم کاوعدہ کیاگیاتھا اوراس کامعاوضہ بھی وصول کیاگیا تھا لیکن انہیں وہ سہولیات نہ مل سکیں’البتہ سعودی حکومت نے بغیرکسی دعوے کے مفت میں وہ تمام سہولیات فراہم کیں کہ جن کاکوئی تصور بھی نہیں کیاجاسکتاتھا۔دنیا بھر کے تمام عازمین کے لیے بالکل مفت ویزہ بلکہ ویزہ منظوری پر آنے والا خرچ بھی سعودی حکومت خود ادا کرتی ہے۔عازمین حج وعمرہ کو سہولیات کی فراہمی کے لیے سعودی حکومت مسلسل ہرسال اربوں ریال خرچ کر رہی ہے اور اس کے نتیجے میں حرمین شریفین خصوصاً حرم مکی دنیا کا سب سے بڑااور مہنگاترین ترقیاتی منصوبہ بن چکاہے۔ شاید تاریخ انسانی میں کوئی منصوبہ اس معیار تک نہ پہنچ سکے۔
انہی سب باتوں کو دیکھ کر ہرحاجی بلکہ حرمین شریفین کی زیارت حاصل کرنے والے مسلمان کے دل سے یہی دعانکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ خادم حرمین شریفین آل سعود کوہمیشہ خوش وخرم اورامن وسلامتی سے رکھے کہ عصر حاضر اورماضی قریب میں ان سے بڑھ کر کوئی ایسی خدمت کا حق ادا کرپایااورنہ ہی شاید کر پائے گا۔