امریکی سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انسانی زندگی کو طویل کرنے کی زیادہ سے زیادہ حد 115 برس تک ہے۔
سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق یہ نتائج انسانی طول عمری کے کئی عشروں پر محیط جائزے کے بعد اخذ کیے گئے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اکا دکا لوگ زیادہ لمبی عمر جی سکتے ہیں، لیکن 125 برس کی عمر کا صرف ایک انسان ڈھونڈنے کے لیے زمین جیسے دس ہزار سیارے چھاننا پڑیں گے۔
تاہم بعض سائنس دانوں نے اس تحقیق کے نتائج سے اختلاف کرتے ہوئے اسے مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔
19ویں صدی کے بعد سے انسانی عمر میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی بڑی وجہ حفاظتی ٹیکے، محفوظ زچگی، متعدی امراض پر قابو اور بہتر صفائی ستھرائی ہیں۔
لیکن کیا یہ اضافہ ہمیشہ جاری رہے گا؟ نیویارک کے سائنس دانوں نے اموات کے ڈیٹا بیس اور فرانس، جاپان، برطانیہ اور امریکہ کے 110 سال سے زائد عمر کے افراد کا جائزہ لیا۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوا کہ سو سال کے بعد عمر میں اضافے کی رفتار گھٹ رہی ہے اور زیادہ سے زیادہ عمر کی حد دو عشرے قبل ایک جگہ پر تھم گئی ہے۔
تحقیق میں شامل پروفیسر جان ویگ نے بی بی سی کو بتایا: ‘105 برس کے بعد عمر میں مزید اضافہ بہت کم ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم انسانی عمر کی حد تک پہنچ رہے ہیں۔
‘ایسا لگتا ہے کہ عمر کی زیادہ سے زیادہ حد 115 برس کے لگ بھگ ہے۔ اس کے پار جانے تقریباً ناممکن ہے۔ آپ دس ہزار زمینیں چھانیں گے، تب جا کر کہیں ایک 125 سالہ شخص ڈھونڈ پائیں گے۔ اس کا امکان اتنا کم ہے۔’
دنیا کی معمر ترین شخص، جن کی عمر کا سرکاری دستاویزات کی مدد سے تعین کیا جا سکتا ہے، فرانسیسی ژاں کالماں تھیں جو 1997 میں 122 سال کی عمر میں فوت ہوئیں۔
اس کے بعد سے کوئی اس عمر کے قریب نہیں پہنچ سکا۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی پروفیسر ڈیم لنڈا پیٹرج نے بی بی سی کو بتایا: ‘عمر کی کوئی نہ کوئی حد ہونا منطقی بات ہے۔ البتہ یہ دلچسپ تحقیق یہ بتا رہی ہے کہ کیا ہو رہا ہے، یہ نہیں بتاتی کہ ہو گا۔’
تاہم یہ دعویٰ میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر جیمز واپل کو قبول نہیں اور انھوں نے اسے مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی اس قسم کے دعوے کیے گئے تھے جن میں عمر کی زیادہ سے زیادہ حد 65، 85 اور پھر 105 برس مقرر کی گئی تھی، تاہم یہ ہر بار غلط ثابت ہوئے۔
انھوں نے کہا: ‘یہ تحقیق طول عمری کے متعلق علم میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کرتی۔’
جانوروں پر کیے جانے والے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمر کی ایک حد مقرر ہے۔ یونیورسٹی آف الینوئے کے پروفیسر جے اولشاسنکی کہتے ہیں کہ چوہوں کی عمر ایک ہزار دن، جب کہ کتوں کی پانچ ہزار دن ہوتی ہے۔ ان کے مطابق انسانیت بھی عمر کی آخری حد تک پہنچ رہی ہے۔
لاکھوں برس پر محیط ارتقا نے انسان کو جوانی میں پھلنے پھولنے اور نسل آگے بڑھانے کا موقع دیا ہے۔ لیکن یہ وقت گزر جانے کے بعد ڈی این اے میں خرابیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے بڑھاپے کے آثار نمودار ہو جاتے ہیں۔
اس لیے عمر بڑھانے کے لیے ہمیں ہر خلیے کے اندر جا کر اس میں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔
پروفیسر جان ویگ نے کہا: ‘120، 125 یا 130 برس کی عمر پانے کے لیے ہمیں بہت بنیادی کام کرنا ہوں گے۔ ہمیں بنی نوعِ انسان کا پورا جینیاتی ڈھانچہ تبدیل کرنا ہو گا، جس کے لیے ہزاروں یا دسیوں ہزار ادویات تیار کرنا پڑیں گی۔
‘بڑھاپے کا عمل اس قدر پیچیدہ ہے کہ انسانی عمر کی حد بڑھانا ممکن نہیں ہو گا۔’