کتے کینسر کی علامتیں ظاہر ہونے سے کئی سال پہلے اس کی موجودگی سے خبردار کر سکتا ہے۔
یہ مناظر تو آپ کی نظروں سے بھی گذرے ہوں گے یا آپ نے ٹیلی ویژن کی فوٹیج میں دیکھا ہوگا کہ پولیس یا سیکیورٹی اہل کاروں کے ہاتھ میں ایک کتے کی زنجير ہے اور وہ کسی مشکوک چیز کے گرد جمع ہیں۔ کتا اسے سونگھتا ہے اور پھر یا تو آگے بڑھ جاتا ہے یا اس کے گرد چکر لگا نے اور دم ہلانے لگتا ہے۔ یہ گویا اس جانب اشارہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر کوئی قابل اعتراض مواد موجود ہے۔
دنیا کے اکثر ملکوں میں اب منشیات اور دھماکہ خیز مواد کا کھوج لگانے کے لیے کتوں کی مدد لی جارہی ہے اور سیکیورٹی اداروں میں خصوصی طور پر سدھائے ہوئے کتوں کے یونٹ قائم کیے جارہے ہیں۔ لیکن وہ دن بھی کچھ زیادہ دور نہیں ہے جب آپ کو اسپتالوں کے کئی شعبوں میں کتے مریضوں کا معائنہ کرتے دکھائی دیں گے۔
یہ مسکراتے یا ہنسنے لگانے کی بات نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں تحقیق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کتے مختلف اقسام کے کینسر کا کھوج لگا سکتے ہیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کئی واقعات میں کینسر لیبارٹری ٹیسٹ کی پکڑ میں تو نہ آ سکا لیکن کتے نے اس کے خطرے سے پیشگی خبردار کر دیا۔
کتے کی مدد سے کینسر کا پتا چلانا محض اتفاقیہ امر ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ کینسر کے بعض مریضوں نے اپنے معالج اور جاننے والوں کو بتایا کہ ان میں کینسر کی تشخیص ہونے سے کئی سال قبل ہی ان کا پالتو کتا جسم کے اس حصے کو بار بار آکر سونگھنے لگتا تھا جہاں بعد میں کینسر کی رسولی کی تشخیص تھی۔ ایسے کئی واقعات کے بعد ماہرین نے اس سلسلے میں تجربات شروع کیے اور انہیں معلوم ہوا کہ کتا کینسر کی اس مخصوص بو کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے جسے انسانی ناک سونگھ نہیں سکتی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کتے کی ناک میں سونگھنے کی صلاحیت رکھنے والے أعصاب انسان کے مقابلے میں 25 گنا زیادہ ہوتے ہیں، جو اس کے سونگھنے کی صلاحیت میں انسان کے مقابلے میں ایک سے پانچ لاکھ گنا اضافہ کر دیتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان أعصاب کی تعداد 12 کروڑ سے 22 کروڑ تک ہوتی ہے۔ یہ پہلو بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ کتے کی ناک کے پچھلے حصے میں سونگھنے والے اضافی أعصاب ہوتے ہیں جو اس کی قوت شامہ میں غیر معمولی اضافہ کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ کتے کے دماغ کی ساخت انسانی دماغ سے مختلف ہوتی ہے۔ انسانی دماغ اپنے گردو پیش کے ادراک کے لیے زیادہ تر آنکھوں پر انحصار کرتا ہے جب کتا کا دماغ اپنی قوت شامہ پر بھروسا کرتا ہے، چنانچہ کتے کے دماغ کا یہ حصہ انسانی دماغ کے مقابلے میں 40 گنا بڑا ہوتا ہے۔
سائنسی مطالعوں سے پتا چلا ہے کہ کینسر زدہ خلیے ایک خاص قسم بو پیدا کرتے ہیں ۔ کتا اس بو کو نہ صرف سونگھ سکتا ہے بلکہ وہ اسے الگ سے شناخت کر سکتا ہے ۔ تھوڑی سی تربیت کے ذریعے کتے کو کینسر کی بو شناخت کرنا اور اس کا اظہار کرنا سیکھایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ کام صرف وہی کتے کرسکتے ہیں جن کے سونگھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کام کے لیے خاص نسل کے کتوں سے مدد لی جاتی ہے۔
برلن میں ماہرین کی ایک ٹیم نے کینسر کی مختلف اقسام شناخت کرنے کے سلسلے میں کتوں کو تربیت دینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ کتے رحم، پیٹ، مثانے، جلد ، پھیپھڑوں اور پراسٹیٹ کینسر کی بو کو الگ الگ شناخت کرسکتے ہیں
ماہرین کا کہنا ہے کتوں مدد سے کینسر کی موجودگی کا پتا چلائے جانے کے بعد جب ان کے لیبارٹری ٹیسٹ کیے گئے تو 95 فی صد واقعات میں کینسر زدہ خلیوں کی تصدیق ہوئی۔ ان میں زیادہ تر مریضوں کا کینسر اپنے ابتدائی مرحلے میں تھا جن کی علامات کو کئی سال کے بعد ظاہر ہونا تھا۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے ابتدائی مرحلے میں زیادہ تر کینسر قابل علاج ہوتے ہیں اور مریض کی جان بچائی جا سکتی ہے۔
طبی ماہرین کتے کی اس صلاحیت سے بہت پہلے سے آگاہ تھے۔ 1989 میں لندن کے کنگزہاسپیٹل کے ڈاکٹروں نے صحت سے متعلق ایک عالمی جریدے’ لینسٹ‘ میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ایک خاتون نے یہ شکایت کی کہ اس کا پالتو کتا آکر ٹانگ کے ایک تل کو بار بار سونگھنے لگتا ہے۔ جب تل کا لیبارٹری ٹیسٹ کیا گیا تو اس میں کینسر زدہ خلیوں کی تشخص ہوئی ۔ اور پھر اس کے بعد آنے والے برسوں میں فرانس سے لے کر کیلی فورنیا اور اٹلی تک نے اس موضوع پر تحقیق شروع ہو گئی۔
برطانیہ میں ایک مطالعے میں ماہرین نے آٹھ رضاکاروں کے پیشاب کے نمونے لیے۔ ان میں سے ایک کینسر کا مریض تھا لیکن اس کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں تھیں جب کہ باقی سات افراد صحت مند تھے اور ان میں سے ایک شخص کینسر کے مریض کا ہم عمر تھا۔ نمونوں کی جگہیں بدل بدل کر یہ تجربہ کئی مرتبہ دوہرایا گیا۔ لیکن ہر بار کتوں نے کینسر کے مریض کے نمونے کو شناخت کرلیا۔ ٹیم کے سربراہ گیسٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ کتے کی سونگھنے کی صلاحیت کو سامنے رکھ کر سائنس دانوں کو الیکٹرانک ناک جیسی مشین کی تیاری پر کام کرنا چاہیے جو کینسر کی بو سونگھ کر تشخیص میں مدد دے سکے۔
کیا الیکٹرانک ناک، کتے کی ناک کی جگہ لے سکے گی، ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آنے والے برسوں میں کتے کینسر کے کھوج میں معالجوں کی مدد کر رہے ہوں گے۔