کراچی (جیوڈیسک) پورٹ قاسم پر درآمدی کوئلے کو اندرون ملک بھجوانے کیلیے دو برتھیں بننے کو ہیں لیکن اس منصوبے پر ماہرین ماحولیات اور شہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، صنعتکاروں کو ویسے تو اس پر اعتراض نہیں ہے لیکن وہ جن کی فیکڑیاں براہ راست اس آلودگی سے متاثر ہوں گی وہ بھی اس منصوبے کوروکنے کے خواہاں ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پنجاب میں ساہیوال کے مقام پر لگنے والے 660میگاواٹ کے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کوبطور ایندھن کوئلہ دینے کیلیے پورٹ قاسم پر دوبرتھیں تعمیر کی جارہی ہیں لیکن بحری جہازوں سے کوئلہ اتارنے اور انہیں ٹرکوں پر لادنے کے عمل کے دوران جو آلودگی پھیلے گئی اس کے حوالے سے ماہرین ماحولیات کا خیال ہے کہ اس سے فائدے سے زیادہ نقصان ہوگا کیونکہ ملک میں قوانین کے کمزور نفاذ اور مانیٹرنگ کی ایک تاریخ موجود ہے۔ شہری نامی این جی او کے ایگزیکٹو رکن رونالڈ ڈی سوزا کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے ماحولیات پر نہایت خراب اثرات ہوں گے۔ سندھ کی ماحولیات کے تحفظ کی ایجنسی ’سیپا‘ کو عوامی مفاد میں کام کرنا چاہینے نہ کہ ان کے جو کہ ماحول کو تباہ کر رہے ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ سیپا کے پاس نہ تو ایسی ورک فورس ہے جو اتنے بڑے پروجیکٹ کو مانیٹر کر سکے۔ امکان یہی ہے کہ ایجنسی (سیپا) اس کی منطوری دے دے گی کیونکہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران وہ اس قسم کے دیگر منصوبوں کی اجازت بھی دے چکی ہے چنانچہ یہ منصوبہ بھی ماحولیات کو نقصان پہنچا کر ہی چھوڑیگا۔ دوسری جانب اس منصوبے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ کوئلے کی دھول کو پانی کا چھڑکائو کرکے پھیلنے سے روکاجاسکتا ہے۔مخالفین کا موقف ہے کہ اس قسم کے ازالے کے اقدامات زیادہ موثر نہیں ہوں گے۔ایک دواساز کمپنی کے سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ اس سے برآمدات پر کو نقصان پہنچے گا۔
ہم مصنوعات کی حساس نوعیت کی وجہ سے ہم تو کوئلے کی ایسی جیٹی اپنی فیکٹری کے ایک کلومیٹرکے رداس میں قبول نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے ہماری دوائوں پر اثر پڑے گا۔اس علاقے میں چند ایک آٹوموبیل صنعتیں بھی موجود ہیں وہ اپنے ماحول میں ہوا کے آمیزے کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں کیونکہ ان کے آپریشنز میں ہوا کے اس آمیزے کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر اس منصوبے کو اس کی مجوزہ جگہ پر ہی بنایاجائیگا تو مجھے اس صورت میں اپنی فیکٹری کہیں اور منتقل کرنا ہوگی ۔انھوں نے بتایا کہ ہم بہت حساس آٹو پارٹس بناتے ہیں جو ایسی فضا میں نہیں بنائے جا سکتے جو کہ کوئلے کے ذروں سے آلودہ ہو۔
ایک اور فیکٹری مالک نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیاجن کی اس علاقے میں غذائی مصنوعات کی فیکٹری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بشری طور پر کوئلے کے ان مہین ذروں سے اپنی مشینری اور مصنوعات کو بچانا ممکن نہ ہوگا۔دوسری جانب ’سیپا‘ کے ڈی جی ندیم احمد مغل کا کہنا ہے کہ ان کا’دفتر یہ یقینی بنائے گا کہ اس منصو بے کی تعمیر کے دوران اور اس کے بعد منصوبہ تمام ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات کرتا ہے‘‘ مغل جنہوں نے اس منصوبے کے حوالے سے حال ہی میں ایک مقامی ہوٹل میں کھلی کچہری کا انعقاد کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ ملکی معیشت کیلیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
انھوں نے ماہرین ماحولیات کو یہ کہتے ہوئے قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ ماحولیات کی قیمت پر اس منصوبے کی منظوری نہیں دیں گے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تا کہ ’’ بڑے صنعتی ممالک میں کوئلہ درآمد کرنے کی تنصیبات تو ان علاقوں میں بھی ہیں جو کہ رہائشی علاقے ہیں ۔ ہم بھی اپنے معاشی مفادات پر کوئی حرف لائے بغیر ماحول کا تحفظ کر سکتے ہیں‘‘ ان کے یہ الفاظ موقع پر موجود بہت سے لوگوں کو قائل نہ کرسکے جن کے دل میں یہ سادہ سا سوال اٹھ رہا تھا کہ اگر خود ان کا گھر بھی قرب وجوار میں ہوتا تو کیا تب بھی ان کے یہی خیالات ہوتے۔