تحریر: انجینئر افتخار چودھری تقریبا دس یا گیارہ سال عمر ہو گی۔ہم ان دنوں باغبانپورہ جدید میں رہائیش پذیر تھے پرانا گھر اب بھی ہے اسے اب چودھری برخوردار والی گلی کہتے ہیں ۔یہ ان دنوں گجرانوالہ کا مضافاتی محلہ تھا۔کچی گلیاں مٹی چھت کوٹھے معمولی انچائی۔سادہ زمانہ سادے لوگ تھے۔شہر بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا۔ادھر ادھر سے لوگ آ کر اس سستے محلے میں احاطے اور آدھے احاطے کے مکان بنا کر گزارا کرتے تھے۔پیسے کی بڑی ویلیو تھی ہم نے بھی تھوڑا عرصہ پہلے چاچے مختار کے گھر کے سامنے آدھے احاطے کا مکان ساڑھے چار ہزار میں بیچا تھا۔ہمارا گھر پاس ہی سے گزرنے والے ایک راجباہ کی ملحقہ گلی میں تھا جہاں آج کل جناح روڈ بنا ہے میں نے اس راجباہ کے پانی کے ساتھ اپنا بچپن گزارا ہے کسی زمانے میں اس کا پانی اتنا شفاف تھا کہ اس کے تہہ کے چھوٹے چھوٹے کنکر بھی نظر آیا کرتے تھے۔میں نے کئی بار ان کنکروں سے باتیں کیں تھیں مجھے کسی نے بتایا کہ یہ کنکر پہاڑوں سے آئے ہیں۔کئی بار اپنی ٹانگیں پانی میں ڈال کر کنکروں سے پوچھتا رہا کہ تم بھی میرے چاچا جی کی طرح پہاڑ سے آئے ہو کئی بار باتیں کیں کہ تمہیں بھی عمر بتانے کے لئے ٹھنڈے موسموں سے ہجرت کرنی پڑی میری بے جی ایبٹ آباد کی تھیں انہیں یہاں کی گرمیاں بہت تنگ کرتی تھیں گرمی دانوں سے گجرانوالہ کا موسم ان کا جسم بھر دیتا تھا۔میں ان کنکروں اور پانیوں سے بات کرتا تمہیں بھی گرمی ستاتی ہو گی۔پہاڑ بہت خوبصورت ہوتے ہیں ان کے باسی بھی بہت پیارے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ یہ آسمان کو چھونے والی مخلوق اپنے بیٹوں کا بوجھ نہیں برداشت کر سکتی۔چھوٹا تھا تو یہ پہاڑی لوگ پنڈی ،لاہور اور بہت لمبی مسافت کراچی کی طے کرتے تھے۔
بڑے بوٹا لاچی دا ہولے ہولے چل گڈئیے لماں سفر کراچی دا میں ہلی ہری پور میں ایک بار تقریر کر رہا تھا وہاں میں نے ہزارہ کے ان بیٹوں کو یاد کیا جو ملائیشیا میں دوسری جنگ عظیم میں مارے گئے ۔کالا خان میرزمان یہ شہداء کی کوئی یادگار ہے جو میں نے ٢٠٠٤ میں دیکھی۔روٹی اس وقت بھی پاکستان کے بیٹوں کو نہیں ملتی اور خاص طور پر بارانی علاقے کے لوگوں کو اور وہ آج کینیڈا امریکہ سپین دبئی سعودی عرب انگلینڈ میں دانے دنکا چگنے نکل گئے۔مائیں انہیں اس وقت بھی یاد کر کے روتی تھیں اور آج بھی روتی ہیں۔میں خدا کی قسم سیاست نہیں کرتا لیکن ایک بات کہہ دوں پاکستان کے صرف دو خاندان اگر لوٹا ہوا مال پاکستان لے آئیں تو کسی ماں کے بیٹے کو پردیس نہیں رہنا پڑے گا۔
میرے گھر کے پاس اس ندی کنارے(اسے ندی ہی کہوں گا) اسلم بھیا کا ایک کھوکھا ہوا کرتا تھا جہاں محلے کے جوان اور کچھ بڑے پھٹے پر بیٹھ جاتے اسلم بھیا کے کھوکھے سے الائیچی سیپاری سونف خوشبو کا ایک پان لینا ہوتا تھا بھیا اسلم مہاجر تھا لیکن ہمیں پتہ اس وقت چلا جب الطاف حسین نے مہاجر مہاجر کی بھلا کا غیرت مند تھا پنجاب کے وسط میں رہا گجرانوالہ کے دیسی لوگوں میں اس قبیح آواز کو سننے سے پہلے ہی مر گیا۔آواز دے کہاں ہے دنیا میری جواں ہے یہ میرا اور ارشد بھٹی کا پسندیدہ گانا تھا توے کو لگا کر وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ مصروف ہو جاتا۔بی بی سی کا پروگرام سیربین اور مارک ٹیلی کی رپورٹیں ہماری دلچسپی کا محور ہوتیں۔ یہ ١٩٧٧ کے دن تھے۔
Winter
میں تو اس باغبانپورے کی بات کرتے کرتے آگے نکل آیا خاص طور پر ان دنوں کی جب میں دس یا گیارہ سال کا تھا۔میری دوستیوں کے سلسلے گھر سے دائیں اور بائیں جانب پھیلے ہوئے تھے۔سردیوں میں والد صاحب ہمارے لئے لنڈے کے کوٹ لے آتے تھے تھوک کے حساب سے لے آتے پہلی پسند بڑے بھائی کی ہوتی اس کے بعد ہم دو بھائیوں کی باری آتی چیک والے کوٹ میں مجھے اپنی جملہ دلچسپیوں کے لئے اچھا ماحول مل جاتا۔اس کی چار چھ جیبیں جیتے ہوئے بنٹوں کی آماجگاہ تھیں سردیوں کی کھیلیں گرمیوں سے یکسر مختلف ہوتی تھیں سردیوں میں اتوار کی چھٹی والے دن خالی احاطوں میں بلوریں کھیلتے میرے نشانے زبان زد عام تھے۔آج بھی بائیں ہاتھ کی بڑی انگلی بہت پیچھے تک چلی جاتی ہے۔ ایک گیم باندر کلہ تھی جو سیاست میں آج بھی کھیلی جاتی ہے گھر کے دائیں جانب میرے دوستوں کی لمبی فہرست ہے جن میں شیخ اصغر،اقبال ارائیں منی ارائیں عبدالرحمن رفیق شیخ تھے فیاض بھی میرے دوستوں میں شامل تھا۔ان دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزرا۔مجھے بعض اوقات خیال آتا ہے کہ میں نے کون سی کھیلیں اپنے بچپن میں کھیلیں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں رائیج الوقت ہر کھیل کھیلا۔پتنگ بازی،لٹو،کوڈیاں،بنٹے،مٹھو گول گرم،لد کچی کے پکی۔تیلی کانا۔
ساتویں میں پڑھتا تھا سامنے مشرقی پنجاب کے پٹھانوں کے لڑکے قمر سے دوستی تھی خالہ پٹوارن کے اس بیٹے سے دوستی تھی اس وقت لفظ پٹواری رعب دھاب کا نام تھا آج ،،،آپ کو علم ہی ہے۔قمر نے ایک بار سامنے کھڑا کیا اور کہا پانچ بار میں تیلے اور ربڑ سے تمہیں نشانہ بنائوں گا اور پانچ بار تم نشانہ بنانا۔پٹھان تھا ظالم کا بلا نشانہ تھا پہلے ہی نشانے نے میری بائیں آنکھ کو نشانے پر لے لیا ایک ہی لمحے میں میری بائیں آنکھ کی بینائی پر بہت برا اثر پڑا۔اس نے مجھے تسلی دی اور وعدہ بھی لیا کہ کسی کو نہیں بتانا میں نے اسے کہا تم دوست ہو کسی کو نہیں بتائوں گا۔میں نے کسی کو نہیں بتایا وقت گزرتا رہا باغبانپورے کے پل کے نیچے سے راجباہ کا پانی گزرتا رہا میں دوستی کی لاج رکھنے میں مصروف رہا۔اس دوران میری آنکھ میں سفید سا نشان پڑ گیا مجھے ہفتے میں ایک دو بار درد کے شدید دورے پڑتے۔پھر وہ ہوا جس کی مجھے امید نہ تھی ۔
گہوٹکی سندھ سے میرے تایا جی آئے انہوں نے میری پھری ہوئی آنکھ کو دیکھ کر والد صاحب کی کلاس لی اور دوسرے روز لئے ڈسکہ میں ڈاکٹر سلطان چیمہ کے پاس لئے گئے۔وہ تھانے دار صاحب(تایا جان)کا دوست تھا اس نے دیکھتے ہی کہا سخت چوٹ آئی ہے اس میں کوئی پونڈی مچھر نہیں پڑا۔میں نے سب کچھ اگل دیا۔وہاں میرا پہلا آپریشن ہوا۔نہر کنارے مریض اپنے منجھی بسترے لے آتے تھے ڈاکٹر صاحب دن میں سیکڑوں مریضوں کا آپریشن کرتے تھے میرا بھی کر دیا۔میں وہاں سے اپنی بائیں آنکھ پر گہرے سبز رنگ کی پٹی باندھ کر آ گیا۔انہوں نے پرہیز بتائی کے تڑکے والی کوئی چیز نہین کھانی کھٹی چیزیوں سے پرہیز اور دھوپ میں نہیں جانا۔ان میں دو ایک پابندیاں تو میرے لئے آج کل وہ پابندیاں تھیں جو شائد اسرائیل نے بھی فلسطینیوں پر نہیں لگائیں۔مثلا آپ نے دھوپ میں نہیں جانا گویا کہ ڈاکٹر صاحب آسمان کی بلندیوں پر میری پتنگ کی شہرت سے خائف تھے میں اس لئے کے میں محلے کا معروف پتنگ باز تھا اس پابندی نے میرے خوابوں کو چکنا چور کر دینے کی سعی لاحاصل کی۔یہ کیسے ممکن تھا کہ فاروقا،حسینا فضائوں میں میرے پدھڑ کی عدم موجودگی میں پھنے خانی کرتے۔میں دوسرے روز ہی ڈور کے پنے کے ساتھ اپنے گڈے کے ساتھ کارخانے کی چھت پر موجود تھا۔والد صاحب وہیں تھے انہیں جب پتہ چلا تو سیدھے چھت پر آ گئے۔۔قبلہ والد صاحب جنہیں ہم خاندانی رسم ورواج کے تحت چاچا جی کہتے تھے وہ اس لئے کہ جائینٹ فیملی تھی میرے کزن چودھری ذوالفقار علی چیئرمین میرین سیکورٹی چودھری مختار گجر مرحوم ممبر فیڈرل کونسل پیپلز پارٹی اور مرحومہ باجی نصرت والدہ ونگ کمانڈر ہارون اپنے ابا جی کو ابا جی اور پمارے والد صاحب کو چاچا جی کہتے تھے ہمیں بھی یہی کچھ کہنا پڑا۔والد صاحب کا غصہ لفظوں میں قید نہیں کیا جا سکتا۔
Foot
ایک شو میں کسی نے پوچھا مار کھائی ہے میں نے جواب دیا سوچ لینے دیں کس دن نہیں کھائی۔والد صاحب پنجاب میں لاچا بڑا سلوکا اور باٹا کے کورڈ برائون سلیپر پہنا کرتے تھے یہ گرمیوں میں ان کا من بھاتا پہناوا تھا،سفاری سوٹ اس پر کراس پستول ان پر بہت جچتا تھا وہ بی ڈی ممبر بھی منتحب ہوئے ہزارہ سے جا کر خاندان میں پہلا الیکشن انہوں نے جیتا سردیوں میں شلوار قمیض پر لوئی وغیرہ کا ستعمال کرتے ۔دائیں کی بجائے بائیں ہاتھ سے مارنا پسند کیا کرتے تھے۔اس روز جب آنکھ پر سبز پٹی تھی انہوں نے کافی مرمت کی گرمی تھی ناک سے خون بہنا شروع ہو گیا ماں جی (دادی اماں) نے دیکھا تو سر پیٹ لیا ان کی آواز بہت بلند ہو رہی تھی مجھے کوئی خاص چوٹیں تو نہیں تھیں البتہ خونریزی سے گھبرا سا گیا تھا۔کاش وہ وقت لوٹے میں اپنے والد صاحب کے ہاتھوں سے مار کھائوں اور میری دادی مجھ سے لپٹ لپٹ جائے اور وہ لمحات بھی دیکھوں کہ والد صاحب ماں جی کی منتیں کریں اور مجھے گلے سے لگا لیں۔ان سطروں کو لکھ تو رہا ہوں لیکن ڈبڈباتی آنکھوں سے۔لوگو !والدین نہیں ملتے دادیاں اس زمین پر خدا کا بہترین تحفہ ہوتی ہیں۔میں نے جائینٹ فیملی سسٹم میں نانیوں اور دادیوں کو دیکھا ہے ان کے پوتوں پر کوئی ہاتھ اٹھائے تو بچیالی مرغی کی طرح لڑ جاتی ہیں۔
ایک بار ہوا کیا ایک پتنگ پیچھے سے آئی میں شیخ رفیق کی چھت پر چڑھ گیا گڈی ہاتھ سے نکلی جا رہی تھی میں بھاگتا بھاگتا گیا دوسری جانب کھلا صحن تھا پتنگ میرے ہاتھ میں تھی میں نے بے حسابا گرنا تھا بچنے کئے سنبھل کے شیخ اصغر کے ویہڑے میں چھلانگ لگا دی۔چارپائی پر پورا کنبہ کنالی میں پڑے چاول کھا رہا تھا۔میں چارپائی کے وسط میں اس کنالی کے اندر چھلانگ لگا چکا تھا بوجھ سے چارپائی ٹوٹ گئی پتنگ میرے ہاتھ میں اور میں اٹھ کر باہر دروازے کی طرف نکل گیا یہ سب کچھ آنا فانا ہوا اگلے روز خالہ شیخنی گلہ لے کر آنے ہی والی تھیں کہ میں بے جی کو لے کر پہنچ گیا ۔وہاں گلہ کیا ہوتا ہنس ہنس کے بر ا حال تھا کیا لوگ تھے۔بچپن کا لپکنا جھپکنا لہو گرم رکھنے کا بہانہ تھا۔یہ سار کچھ لکھ ڈالا مگر اصل بات یہ کرنی ہے کہ تین روز پہلے ایک دوست کے ہاں ملنے گیا صرف دو سیڑھیوں سے پھسلا اور آج چوتھا روز ہے پٹیاں باندھ کر گھر بیٹھا ہوں۔ایک زمانے وہ تھا کہ چھتوں سے چھلانگیں اور ایک یہ کہ خود کھڑے کھڑے گر رہے ہیں کیا کہوں اس پائوں کو جس میں بجلیاں کوندتی تھیں اور کیا کہوں اس کو جو کھڑے کھڑے لڑکھڑا رہا ہے۔ثبات ،طاقت دائمی اللہ کی ہے ہم اس کے کمزور بندے اس کی مدد کے بغیر کچھ بھی نہیں۔تو یہ احوال ہیں MY FOOTکے۔