تحریر : روہیل اکبر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں ایسے سیاستدان ملے ہیں جنہوں نے ہمیشہ صرف اپنے مفادات کو ترجیح دی یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں جمہوریت کے ہوتے ہوئے بھی ہم بد ترین آمریت کے سایے میں بے بسی کی زندگی گذاررہے ہیں وزیراعظم اپنے آپ کو بادشاہ سمجھ بیٹھے ہیں جو اپنے چند جی حضورکہنے والوں کے ہمراہ ہر وقت مصروف رہتے ہیں کہیں آنا جانا بھی پڑے تو وہی چند درباری ان کے ہمراہ ہوتے ہیں پہلے تو کبھی کبھار سرکاری ٹیلی ویژن پر وزیراعظم اپنی عوام کو اپنا دیدار کروا دیتے تھے مگر اب کچھ عرصہ سے انہوں نے ٹیلی ویژن پر بھی پردہ نشینی اختیار کر رکھی ہے۔
ایک طرف تقریبا 20 کروڑ وہ عوام ہے جو ہر روز اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ انکے ووٹوں سے منتخب ہوکر حکمرانی کے مزے لوٹنے والا کب انکی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کرینگے کب پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگا اور کب عوام کے چہروں پر خوشحالی کا رنگ چمکے گا مگر ہمارے ہی ووٹوں سے ہم پر مسلط ہونے والوں نے نہ صرف ملک کو قرضوں کی زنجیر میں جکڑ دیا بلکہ غریب عوام کو مہنگائی اور ٹیکسوں کی دلد ل میں بھی دھکیل دیا اور یہ شائد اسی لیے ہو رہا ہے کہ الیکشن کے دنوں میں غریب کو دو وقت کی روٹی کھلا کر دوبارہ پھر ووٹ حاصل کرلیے جائیں ہمارے الیکشن میں اب یہ رواج بن چکا ہے کہ ووٹروں کو خریدا جائے۔
کسی کو روٹی کے چکر میں کسی کو چائے کے لالچ میں اور کسی کو پیسوں سے خرید لیا جاتا ہے غربت نے ہمارے ووٹروں کی مت ماردی ہے اور ان میں قوت فیصلہ کی اسی خامی کا فائدہ اٹھا کر سیاستدان ہم پر مسلط ہوکربادشاہی کا خواب دیکھنا شروع کردیتے ہیں بادشاہی کی مسند پر براجمان ہوکر حکمران عوام سے دور بھاگتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے ہی حلقہ میں عوام کو منہ دکھانے نہیں آتے اور جس حلقہ سے ووٹ لیکر وزیراعظم اور وزیراعلی منتخب ہوتے ہی انکے ووٹر بھی انکو نہیں مل سکتے اس سے بڑی بد قسمتی اور بدنصیبی اور کیا ہو گی کہ ایک ووٹر اپنے جیتے ہوئے امیدوار کو ہی نہ مل سکے جو جیتنے کے بعد ملک کی تقدیر کا مالک بن جائے مگر اس کے ووٹر دو وقت کی روٹی کو ترس جائیں۔
Poverty
انہیں پینے کا صاف پانی بھی میسر نہ ہو اور بیماری کی صورت میں ایڑیاں رگڑ کر مرنا انکا مقدر بن جائے تو پھر ملک میں ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ جسکے پیچھے آمریت اپنا کام کر رہی ہو اور ویسے بھی ہمارے حکمرانوں نے جمہوریت کو صرف تماشا بنا رکھا ہے جب انکا دل چاہا جمہوریت کی ڈگڈی نکالی اور بجانا شروع کردی عوام تو ہماری پہلے ہی فارغ ہے جہاں مداری نے تماشا لگایا وہی مجمع لگ جاتا ہے ہمارے اکثر عوامی مقامات جیسے بس اڈے ،ریلوے اسٹیشن اور مختلف بازاروں میں اپنی مختلف قسم کی ادویات بیچنے کے لیے مجمع ساز چند کھلونوں اور قصے کہانیوں سے درجنوں لوگوں کو جمع کرلیتے ہیں اور پھر گھنٹوں مزیدار باتیں کرنے کے بعد اپنا منجن اور دوائی بیچ کرہزاروں روپے کی دیہاڑی لگا لیتا ہے۔
مجمع میں موجود ہر شخص یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے کہ جو دوائی ہم لے رہے ہیں وہ کسی کام کی نہیں مگر پھر بھی وہ مداری کی باتوں میں آکر اسکی دوائی خرید لیتے ہیں اسی طرح ہمارے سیاستدان بھی الیکشن کے دنوں میں آکر عوام کو اپنی باتوں سے بیوقوف بناتے ہیں اور اپنا منجن بیچ کر چلے جاتے ہیں ہمارے لوگوں میں سیاسی شعور بھی ہے عقل اور سمجھ بھی ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ حکمرانوں کا کام صرف لوٹ مار ہی کرنا ہے مگر اس کے باوجود وہ ہر بار ان کے جھانسہ میں آکر اپنا ووٹ دے کر انہیں بادشاہ بننے پر مجبور کردیتے ہیں ہم نے اپنے ووٹ کو ڈالنے سے پہلے کبھی یہ نہیں سوچا کہ جتنے امیدوار ہیں ان میں سے بہتر کون ہے جو کل ہمارے درمیان ہی رہے نہ کہ وہ الیکشن کے فوری بعد لاہور یا اسلام آباد شفٹ ہوجائے اور پھر اگلے الیکشن میں ہی دوبارہ نظر آئے آج اگر سپریم کورٹ یہ کہنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے جمہوریت میں حکمران عوام کے قریب ہوتے ہیں ہر خوشی اور غمی میں شریک ہوتے ہیں مگر یہاں تومعاملات ہی الٹ ہو چکے ہیں۔
Votes
حکمرانوں اور انکے حواریوں نے جمہوریت کو سرعام ننگا کر کے الٹا لٹکا رکھا ہے جیسے ہمارے تھانوں میں غریب انسان کو الف ننگا کرکے الٹا لٹکایا جاتا ہے اور پھر بد ترین تشدد کرکے پولیس والے اپنی ذہنی تسکین کرتے ہیں بلکل ایسے ہی ہماری جمہوریت کو ہمارے حکمرانوں نے اپنی ذہنی تسکین کا زریعہ بنا رکھا ہے کبھی جمہوریت کا سربازار مجرا کروادیاجاتا ہے تو کبھی جمہوریت کو اپنے پاؤں تلے روند دیا جاتا ہے کبھی جمہوریت کو اپنے خاندان کی حفاظت پر چوکیدار بنا دیا جاتا ہے تو کبھی جمہوریت کو پرانے کپڑوں کے ساتھ تبدیل کر دیا جاتا ہے یہ کہاں کی جمہوریت ہے کہ جمہوری حکمران اپنے سردرد کا علاج بھی یورپ میں جاکر کروائیں اور جمہوریت کے لیے جان دینے والی عوام اپنے علاج کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھائے۔
محب وطن اور عوام کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے اعلی افسران کھڈے لائن جبکہ کرپشن کے ماہر اور جی حضوری کرنے میں ماہر چھوٹے افسر اعلی عہدوں پر صرف اس لیے تعینات کر دیے جائے تاکہ وہ حکمرانوں کی جوتیوں پر سے نظر اٹھا کر بات نہ کرسکیں اور انکے نیچے ان سے سینئر نکمے ،نااہل اور مفاد پرست افسران لوٹ مار سمیت ہر غلط کام کو اچھا بنانے میں مصروف ہوں تو ایسی لولی لنگڑی اور ننگی جمہوریت میں پاکستان قرضوں کی دلدل میں ڈوبتا جائے گا ہر آنے والا بچہ اپنی پیدائش سے قبل ہی مقروض پیدا ہوگا اور غلام نسل کے بادشاہ حکمران یونہی لوٹ مارکرتے رہیں گے ہماری عدالتیں یونہی اپنے ریمارکس دیتی رہیں گی اور ہم ان مداریوں کے یونہی تماشائی بن کر اپنا وقت برباد کرتے رہیں گے کیونکہ ہم غلام ہماری جمہوریت تماشا اور ہمارے ادارے معذور بن چکے ہیں اور یہ ہماری مکمل بربادی تک یونہی جمہوری مجرا چلتا رہے گا۔