تحریر : ابنِ نیاز آج رئوف کلاسرا صاحب کا کالم پڑھا جو شائع تو شاید دو تین دن پہلے ہوا تھا لیکن میری نظر سے آج گزرا۔انھوں نے پاکستان کی کچھ عمارتیں گروی رکھنے کے بارے میں بات تحریر کی تھی اور مزید بھی بہت خوب تجزیہ کیا تھا۔ ایک عمارت ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے بارے میں انھوں نے کہا کہ اس کی قیمت لگانے والے نے چند کروڑ لگائی جو میرے خیال میں شاید پانچ سے آٹھ کروڑ کے درمیان ہو گی۔ میں یہ خبر پڑھ کر بہت حیران ہوا۔ریڈیو پاکستان کی عمارت چھ منزلہ ہے اور جس ایریا میں ہے وہاں صرف زمین کی قیمت کم از کم پچاس سے ساٹھ کروڑ روپے فی کنال ہو گی۔ تویہ عمارت کم سے کم بھی تین سے چار کنال کے رقبہ پر تو بنی ہوگی۔ اس کی تعمیر پر کل خرچہ موجودہ وقت کے حساب سے کم از کم پچاس ساٹھ کروڑ آیا ہو گا۔ اور ظاہر ہے جب کوئی چیز بھی بیچی جاتی ہے تو اس میں منافع کا حساب بھی رکھا جاتا ہے۔ تو کیا ریڈیو پاکستان اسلام آباد کی یہ عمارت دو ارب روپے سے کم کی ہے؟ اسی طرح مزید عمارتوں کا حساب لگا لیجئے۔
بہت پہلے جب پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے فوت ہونے کے بعد پاکستان میں لنگڑی لولی جمہوریت چل پڑی تھی تو کسی اخبار میں پڑھا تھا کہ پاکستان جلد ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس گروی رکھ دیا جائے گا۔ کیونکہ پاکستان کے بیرونی قرضے لینے کی جو رفتار تھی اس نے ایف سکسٹین ، سیونٹین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ١٩٩٠ میں پاکستان پر مجموعی طور پر ٢١ بلین ڈالر کے قرضے تھے جو ٢٠٠٧ میں بڑھ کر ٣٩ بلین ڈالر کے قریب ہو گئے تھے۔ شاید جنرل مشرف دور میں ان کے حکومتی ترجمان نے فخر سے کہا تھا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے تمام قرضے واپس کرکے پاکستان کو ان دونوں اداروں سے نجات دلا دی ہے۔ اس میں شک کیا جاسکتا ہے اور یقین بھی کہ ١٩٩٩ میں یہ قرضے اڑتیس اعشاریہ نو بلین ڈالر تھے جو ٢٠٠٤ میں ٣٥ بلین ڈالر رہ گئے تھے۔ لیکن پھر ٢٠٠٧ میں دوبارہ اڑتیس اعشاریہ آٹھ بلین ڈالر ہو گئے تھے۔ تو یہ کیا تھا؟ اگر جنرل مشرف دورِ حکومت میں ختم ہوئے تھے تو پھر یہ کہاں سے اور کیسے بڑھ گئے تھے؟ اور یہ اڑتالیس ارب ڈالر بڑھ کر حفیظ پاشا صاحب کی رپورٹ کے مطابق ٢٠١٨ میں ٩٠ ارب ڈالر ہو جائیں گے۔ یہ سب جمہوریت کے ثمرات ہیں۔
Loans
جمہوری دورِ حکومت پاکستان کے لیے معاشی طور پر خاص پر ہمیشہ ہی برا رہا ہے۔ اگر زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں تو اس کے ساتھ ہی عوام پر مجموعی ٹیکسز کی تعداد اور مقدار بھی بڑھی ہے۔بیس سال پہلے اگر ایک پیدا ہونے والا بچہ تیس ہزار روپے کا مقروض ہوتا تھا تو آج وہ بچہ اسی ہزار روپے کا مقروض ہے۔ یہ وہ قرضہ ہے جو پاکستان کے چند گنے چنے خاندان لیتے ہیں اور ان کو واپس پورے پاکستان کی اٹھارہ کروڑ عوام کو کرنا پڑتا ہے وہ بھی سود سمیت، جو کہ اصل رقم کا دس گنا ہوتا ہے۔کیا زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے کے لیے قرضے لینا ہی ضروری ہے۔ پاکستان میں کس چیز کی کمی ہے۔ دنیا کا بہترین پھل یہاں پیدا ہوتا ہے۔ بہترین اجناس یہاں پیدا ہوتی ہے۔ وسائل اس قدر ہیں کہ اگر ایمانداری سے استعمال کیے جائیں تو عشروں میں نہیں بلکہ چند سالوں میں پاکستان دنیا کو قرضے دینے کے قابل ہو جائے۔
اب جو اصل بات کہ مذکورہ بالا رئوف کلاسرا کے کالم کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جناب اسحاق ڈارپاکستان کی مختلف عمارتیں گروی رکھ رہے ہیں کہ جن کے بدلے میں وہ قرضہ لے سکیں اور پاکستان کی معیشت کو سنبھالا جا سکے۔آخر قرضہ لے کر ہی کیوں معیشت کوسنبھالادیا جاتا ہے۔ کیا اور کوئی طریقہ نہیں۔ اسحاق ڈار صاحب کو بین الاقوامی ایوارڈ ملا اس پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ یہی ایوارڈ شاید شوکت عزیز صاحب کو بھی ملا تھاتو اس وقت نون سے نواز لیگ نے وہ رولا ڈالا تھا کہ کیا کہا جائے۔ شوکت عزیز ورلڈ بینک اور آئی ایم کے نمائندے ہیں۔ پاکستان کو گروی رکھ دیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب جب وہی ایوارڈ اسحاق ڈار کو ملا تو خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔
اس کو پاکستان کی کامیابی گردانا جا رہا ہے۔ میں پاکستان کا ایک شہری ہونے کے ناطے یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہوں کہ کب تک یہ دہری پالیسی اپنائی جائے گی۔اس وقت شوکت عزیز صاحب نے پاکستان کو گروی رکھ دیا تھا تو آپ نے کون سا کم کیا ہے۔پہلے موٹر وے گروی رکھ دیں اور اب عمارتوں کی باری آگئی ہے۔ جن کی قیمت ان لوگوں سے لگوائی جا رہی ہے جن کا تعلق شاید یا تو خیبر پختونخواہ کے دور دراز کے دیہاتوں سے ہے یا پیارے بلوچستان کے دور دراز کے علاقوں سے۔ان صوبوں کا نام اس لیے لکھا گیا ہے کہ شاید یہاں کے لوگوں کو اسلام آباد کا صرف نام ہی معلوم ہو، وہاں قیمتوں کا اندازہ نہیں ہو گا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام آباد کے ہی ایک علاقے بلیو ایریامیں کسی دکان سے کوئی چیز خریدیں تو وہاں بھی اسلام آباد کے نام کا ٹیکس قیمت میں جمع کیا جاتا ہے تب قیمت بتائی جاتی ہے۔ بچوں کے ایک سائیکل کا میں نے پتہ کیا تو مجھے احسان جتا کر مکمل ڈسکائونٹ کرکے آٹھ ہزار روپے بتایا گیا۔ وہی سائیکل پشاور یاایبٹ آباد سے پانچ سے چھ ہزار میں مل گئی۔یہ صرف ایک چھوٹی سی مثال دی ہے۔
Tax
کیا قرضے لے کر پاکستان کی معیشت سنبھالی جائے گی۔ کیا پاکستان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ ہزاروں ہیں۔ انڈیا اور افغانستان سے دوستی چھوڑ کر ہم اگر اپنی برآمدات کو دنیا کے دوسرے ممالک تک پہنچائیں اور کمیشن مافیا کے پر کتر ڈالیں تو کون کہتا ہے کہ پاکستان کے برآمدات اچھا زر مبادلہ نہیں دے سکتے۔پاکستان میں جو کارخانے بند پڑے ہیں ان کو چلانے کا بندو بست کیا جائے تو ان میں بننے والی مصنوعات اس قابل ہوتی ہیں کہ ان کو برآمد کیا جا سکے۔پاکستان میں ہر چیز بنتی ہے، لیکن ان پر لگنے والے ٹیکس اس قدر ہوتے ہیں کہ ان ہی کے متبادل ہم مجبوراً پاکستان میں درآمد شدہ اشیاء خردینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں بننے والی اشیاء پر ٹیکس کم کریں، باہر سے آنے والی اشیاء پر ٹیکس لگائیں۔ جو چیزیں پاکستان میں بھی بنتی ہیں اس طرح کی اشیاء کی درآمد پر پابندی لگائی جائے، مکمل پاپندی۔ تو ظاہر ہے جب پاکستان کے اندر کی اشیاء کی خرید و فروخت ہی وافر مقدار میں ہو گی تو حکومتی خزانے میں بھی اضافہ ہو گا۔ اگر ہر دکاندار کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی آمدنی پر ٹیکس دیا کرے تو کون کہتا ہے کہ پاکستان کی معیشت بہتر نہیں ہو گی۔ اگر عوام پر ٹیکس ان کی تنخواہ کے حساب سے لگا کر امیروں کو مجبور کیا جائے کہ وہ لازمی ٹیکس دیں، ہر اس چیز پر جو ان کی استعمال سے زیادہ ہے۔ ہر امیر ٹیکس دے، کسی کو بھی چھوٹ نہ ہو تو کیسے ممکن نہیں کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر نہ بڑھیں۔ کہیں سے قرضہ لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
اے عوام، جاگ جا۔ اگر شیروں کی کچھار میں شیروں کو کچا گوشت وہ بھی انسانی گوشت کھانے کی لت پڑ گئی ہے تو پھر کل موٹر وے گروی رکھی تھی، آج عمارتوں کی باری ہے، کل تمھارے ڈیموں کی باری آئی گی ، اسی طرح تمھارے سر کے اوپر یہ جو کچی پکی چھتیں ہیں یہ بھی گروی رکھی جائیں گی۔ پھر اے عوام ،میرے پیارے عوام تمھاری باری آئے گی۔ تم سانس بھی لو گے تو اس شخص کی مرضی سے جس کے پاس تم گروی رکھے ہوئے ہوگے۔ تمھارے پیٹ میں گڑ بڑ ہو رہی ہو گی لیکن تمھیں واش روم جانے کی اجازت اس وقت ملے گی جب تمھارا مالک تمھیں اجازت دے گا۔ یاد رکھو یہ دن دور نہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ووٹ ضرور دو، لیکن انسانوں کو۔ ان انسانوں کو جو تمھارے بیچ میں رہتے ہیں اور دردِ دل رکھتے ہیں۔ انسانیت کا درد رکھتے ہیں۔ جن کو تم اچھی طرح جانتے ہو کہ اگر ان کو عنان حکومت دی جائے تو وہ عوام کے لیے، پاکستان کے لیے کچھ نہ کچھ کریں گے۔ کچھ ایسا کہ پاکستان کا نام بھی دنیا میں مثبت انداز میں آگے بڑھے گا اور عوام کو سہولیات بھی ملیں گی اور عوام خوشحال بھی ہوں گے۔لیکن اگر تم اسی طرح اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ووٹ دیتے رہے تو پھر وہ وقت بھی دور نہیں جب آج کے انڈیا کو ڈرانے والا ہمار ایٹمی ملک انڈیا کے پاس ہی گروی ہو گا۔ اور انڈیا تو چاہتا ہی یہی ہے کہ کسی بھی طرح پاکستان کو دنیا بھر میں تنہا کر دے۔ جب پاکستان کا ایٹمی نظام بھی گروی رکھ دیا جائے گا تو پھر پاکستان کے پاس کا کیا بچے گا؟ سوچیے ضرور سوچیے، عقل کی روشنی سے نہ کہ اندھی تقلید کی روشنی میں جو کہ صرف اندھرے ہی بخشتی ہے۔