تحریر : شہزاد سلیم عباسی سول ملٹری قیادت بولنے ، لکھنے اور کہنے میں انتہائی سادہ ترکیب ہے لیکن سول ملٹری ریلیشن شپ کا استوار ہونا ملکوں، قوموں اور خطوں کا ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی صفوں میں سیاسی و عسکری قیادت کے باہمی تعلق اور منصوبہ بندی کا فقدان کوئی اچھمبے کی بات نہیں۔ 56 اسلامی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر نے سے لیکر نیو کلیئر بننے تک اغیار ممالک دنیا کے طول و عرض میں سیاسی و عسکری قیادت کوگمراہ کر کے عدم توازن کا شکار کر نے کی مذموم کوشش کر تے رہے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان، ترکی،افغانستان اور دیگر اسلامی ممالک میں امریکہ اور بھارت کے بڑھتے غیر ضروری اثر و رسوخ اور منفی کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ معذرت سے افواج پاکستان کا کام سرحدی محاذوں پر ملک کو درپیش خطروں اور ناپاک دشمن کے بے ایمان ارادوں سے محفوظ بنانا ہوتا ہے نہ کہ انہیں ملک کے اندرونی معاملات میں پھنسانا ہے۔ ملک میں اندونی خلفشار کیصورت میں عدالتیں، ایوان اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے موجود ہیں۔
لیکن بد قسمتی سے تقریبا ہماری ہر سیاسی قیادت نے اپنے دور میں کبھی پاک آرمی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا تو کبھی اپنی غلط پالیسیوں اور رویوں کی بدولت مارشل لاؤں اور ایمرجنسی نفاذوں کو دعوت دی۔تمہیدکا طول پکڑنا بھی غیر مناسب عمل ہے دراصل عام طور پر معاشرے کے چند سیانے اور کھیل کے گوروجب چائے کی میز پر بیٹھے کچھ نیا سوچنے کی ٹھانتے ہیں تو بڑے سے بڑے مسائل اور پریشانیوں کا سراغ نکال لیتے ہیں۔ شطرنج کے بازیگر کسی الجھی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنے دماغ کی گھومتی چالوں سے مہروں کی تدایبر کو ایسا چکما دیتے ہیں کہ مہرے بھی ورطہ حیرت میں پڑھ جاتے ہیں۔ جمہوری ادوار کے عام حالات میں اگر مسئلہ قومی یا بین الاقوامی گفتگو کا حامل ہو تو ایسے میں شطرنج کے مہاتیر مل بیٹھتے ہیں جس میں وہ اندرونی یا بیرونی معاملات پر غور و فکر کرتے ہیں اورحکمت عملی و معاملہ فہمی سے حالات کے ڈگر کو بھانپتے ہوئے دیر پاحل نکالنے کی سعی کرتے ہیں۔
چنانچہ اس بار بھی ایک انتہائی حساس نوعیت کے غیر معمولی اجلاس میں بلا شک و شبہ ارض پاکستان کی غیور اور مخلص حکومتی قیادت موجود تھی جس میں وزیر اعظم میاں نوازشریف ،دو فوجی صاحبان، دووفاقی وزراء اور پنجاب کے وزیر اعلی میا ں شہباز شریف موجود تھے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار کے مطابق ملکی سلامتی اور سیکورٹی صورتحال پر مبنی اجلاس کی کاروائی کا لیک ہو جانا افسوسناک عمل ہے۔چوہدری نثار نے کہا کہ ڈان کے صحافی سرل المیڈ ا نے اجلاس کی اندرونی کاروائی اور نقاط کو اپنے اخبار میں چھاپ کر نہ صر ف صحافتی اقدار کو داغدار کیا ہے بلکہ ملکی سلامتی کی خفیہ گفتگو کو لیک کر دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرل المیڈا کا نام اس لیے ای سی ایل میں ڈالا ہے تاکہ وہ ملک سے فرار نہ ہوسکے اور ای سی ایل میں ڈالنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ جس کے ذریعے سے یہ سٹوری لیک کرائی گئی اس تک رسائی مل جائے یعنی اصل جڑیا سورس تک پہنچا جا سکا۔
Nawaz Sharif and Raheel Sharif
بغور جائزہ لیا جائے تو ایک چیز خارج از امکان نہیں کہ اس قدر حساس اور اہم اجلاس کی انٹیلی جنس سیکورٹی اتنی ناقص تھی کہ سٹوری اتنی آسانی سے لیک بھی ہو گئی ؟ نشر بھی ہو گئی اور حکومت نے اتنی آسانی سے تمام ٹی وی چینلز کو بھی نشر کرنے دے دی ۔اور اگر سرل المیڈا کی باتو ں میں کوئی وزن ہے تو سیکورٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے، لیت و لعل سے کام نہ لیا جائے جیسا کہ تاریخ گواہ ہے کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے سے آج تک کوئی معاملہ تہہ کو نہیں پہنچ پایا۔ اگر دوسرے زاویے سے اس سٹوری کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت میں تعلقات کا بگاڑ کوئی’’ بریکنگ نیوز ‘‘نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان میں یہ کوئی نئی مثال ہے۔ بات کوئی اور ہے جو چھپائی جا رہی ہے اور ملبے تلے سرل ہی دب رہا ہے کیونکہ کوئی دوسرااتنا کمزور نہیں جو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکے۔ اگر صدق دل سے بات کی جائے تو جو سٹوری لیک ہوئی اس طرح کی کہانیاں روزانہ کی بنیاد پر مختلف ٹی وی اینکر پرسن لیک کرتے ہیں اور ان ٹی وی چینلز کوبھارت سمیت پوری دنیا دیکھتی ہے لیکن اس سٹوری کو جان بوجھ کر ’’ہائپ‘‘ بنانا سمجھ سے بالا تر ہے۔ بہرحال قسمت کے دھنی تو اپنا کام دکھا کر کے، سٹوری کو سازش بنا کر اور بادشاہ اوروزیر کے کھیل میں سرل المیڈا کو نحیف مہرہ بنا کر شیر کے منہ میں چھو ڑگئے۔ یہ الگ بات ہے کہ سرل اسکرپٹ کا رائٹر بھی کمزور ہے اور اس پر واوہلا مچانے والے بھی کن ذہن ہیں کیونکہ اگلے ایک دو دنوں میں اس سکرپٹ کا’’دی اینڈ‘‘ بھی ہو جائے گا۔
عمران خان، سید خورشید شاہ اور سراج الحق اب کرپشن اور پانامہ کے پیچھے پڑھ چکے ہیں۔ پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی تینوں جماعتیں پانامہ لیکس کو نواز شریف کے لیے وبال جان اور چارج شیٹ سمجھتے ہیں۔عمران خان کا 10 نومبر سے قبل ممکنہ دھرنہ، پیپلزپارٹی کی جاری ریلیاں اور جماعت اسلامی کے متواتر بڑے شہروں میں کرپشن کے خلاف جلسے مسلم لیگ ن کی حکومت کے لیے بڑا چیلنچ کھڑا کرسکتے ہیں۔ ماہ اکتوبرکا دور دورہ ہے اورمسلم لیگ ن کی حکومت پر یہ کافی بھاری گزرتا ہے اس ماہ میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا یہ جعلساز پنڈتوں کے احمق اور پیشن گوئیوں کے بنگالی بابا شیخ رشید احمد کا کہنا ہے اور انکا یہ بھی کہنا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ہٹنے تک یہ ایام میاں صاحبان کے لیے منہوس رہیں گے۔ میاں برادران جہاں اپنی والدہ کی دعا کی بدولت ذاتی طور پر سکھی ہیں وہاں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی غیر معمولی دلچسپی کے باعث سی پیک جیسے عظیم منصوبے کو پاکستانی عوام کو خوشحال بنانے کے لیے کھینچ لائے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں اب لوگ کہتے ہیں کہ وہ کافی میچور اور زیرک سیاستدان بن چکے ہیں۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر میاں نواز شریف اپنے نام نہاد ایڈ وائزروں سے پیچھا چھڑا کر پانامہ لیکس کے معاملے پر جلد سے جلد عوام کو اعتما د میں لیں اور دوٹوک موقف دیں۔ کسی موضوع اور پیشہ وارانہ صلاحیت کے حامل شخص کو بغیر کسی توقف کے وزیر خارجہ لگائیں۔ بعض میڈیا ذرائع کے مطابق سرل المیڈ ا جیسے واقعات کا مقصد کشمیر کاز، پانامہ لیکس اور عمران خان دھرنے سے’’ توجہ ہٹاؤ مہم‘‘ ہے ،ایسی صورتحال میں اس قسم کی بے جا اور غیر معقول میڈیا گفتگو سے معاملات کو مزید نہ الجھا یا جائے۔ بات کابتنگڑ بننے سے روکنا حکومت اورپیمر ا کا کام ہے، لہذا پیمرا کو فعال کیا جائے اور ملکی و قومی سلامتی کے معاملات کو آن ایئر ہونے سے پہلے پیمرا سکین کرے۔حقیقت حال یہ ہے کہ معاملات جو بھی ہوں، حالات اور حکومتیں جو بھی ہوں میڈیا اصلاحات اور اس پر عمل در آمد وقت کی اہم ضرورت ہے۔