تحریر : منظور احمد فریدی اللہ جل شانہ کی لا محدود حمد وثناء اور وجہ تخلیق کائنات ذات کبریا پر کروڑوں بار درودو سلام کے نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم نے آج جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے وہ بظاہر ایک عام سی بات ہے مگر غور کیا جائے تو معاشرہ میں ہونے والی جملہ برائیوں کے پیچھے جو محرکات ہیں وہ اختیارات کے عدم استعمال ناجائز استعمال کے باعث ہی شروع ہوتی ہیں انسان کو اللہ نے بنیادی طور پر بہت ہی کمزور پیدا کیا ہے آج یہ ہوائوں میں اڑ رہا ہے خلاء میں رہائش بنا رہا ہے ایک دوسرے کی تباہی کا سامان اتنا بنا چکا ہے کہ ایک پل میں ملک کا ملک تباہ کرسکتا ہے مگر فطری طور پر اللہ کی تخلیق کردہ ایک ادنیٰ سی مخلوق مکھی کا پر ٹوٹ جائے تو یہ انسان اسے جوڑ نہیں سکتا انسان پیدائشی حریص واقع ہوا ہے ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی خواہش اس کی گھٹی میں شامل ہے اور اسی برتری کو اللہ کے قاعدہ کلیہ اور معیار تقویٰ کے بجائے باہمی زندگی دنیا کے عیش و عشرت کو حاصل کرنے کے لیے خود کو عوام الناس سے اعلیٰ خیال کرتا ہے اور انہیں خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ اختیار حاصل کرلیتا ہے اختیارات کو حاصل کرنے کے بعد اب ان کا استعمال اسے اسکے خوابوں کی تعبیر تک پہنچاتا ہے۔
اسلامی معاشرہ میں اختیارات کو خدمت کے لیے تفویض کیا جاتا ہے اور اس پر نکیرین کی وعید کے علاوہ عوام کو بھی نگران بنادیا جاتا ہے اسلامی ریاست کے نامور حکمران اسلام کے عظیم جرنیل جناب عمر فاروق کو بھی سرراہ ایک عام شخص کھڑا کرکے پوچھ سکتا ہے کہ اے عمر بتا بیت المال سے تیری کتنی تنخواہ ہے اور اس سے پہلے تیرا گزر بسر کس طرح ہوتا تھا وطن عزیز کی یہ بد قسمتی رہی کہ اسکو آج تک کوئی اسلامی شعار اپنانے والی قیادت نصیب نہ ہوئی اقتدار کو خدمت کے بجائے حکومت ہی سمجھا گیا غرباء اور امراء کے لیے ایک ہی جماعت صرف نمازوں میں رہ گئی قانون الگ الگ ہو گئے کسی کو تو سو روپے چرانے پہ جیل میں زندگی گزارنا پڑی تو کسی کو سو افراد کے قتل کے بعد بھی شرفاء کی صف میں ہی شمار کیا جاتا رہا۔
ملکی وسائل کو مال غنیمت سمجھا گیا اقرباء پروری کی وہ بدترین مثال قائم کردی گئی ہے کہ آج سیاسی سطح پر تمام پارٹیوں کے سرکردہ لوگ آپس میں گہرے رشتے دار ہیں احتساب کے نام پر مخالفین کو زچ کرنے کے علاوہ کوئی چیک اینڈ بیلینس کا نظام رائج ہی نہ ہوسکا نتیجہ میں ہر زید بکر نے اپنے اختیارات ناجائز استعمال شروع کردیا ایک خاکروب سے لے کر وزیر اعظم تک سب کرپشن کرنے لگے اختیارات کے ناجائز استعمال کی ایک سب سے چھوٹی مثال تھانہ ہے جہاں تعینات ایس ایچ او اپنے اختیارات میں تھانہ کے متعلقہ حدود کا مالک ہوتا ہے وہاں اگر جرم ہوتا ہے تو اسکے اوپر تعینات ڈپٹی اے ایس پی پھر ضلع کا مالک ایس پی پولیس اس سے جواب طلبی کرسکتا ہے مگر یہی اختیارات اگر ناجائز استعمال ہوں اور اسکے ثمرات میں ضلع کے سربراہ کے علاوہ صوبہ کا آئی جی اور اسکے اقرباء بھی شامل ہوں تو قوم کو وبال کے علاوہ کیا دینگے پھر کیا ہوگا یہی ہوگا کہ تھانیدار ہر شریف شہری کی عزت شہرت سے بے دریغ کھیل جائیگا اور علاقہ میں جرائم کی سطح بڑھتی جائیگی۔
Drug Dealer
منشیات فروش اور ٹائوٹ علاقہ کے معززین میں شمار ہونگے اور معززین علاقہ کو اپنے جائز کام کے حصول کے لیے بھی دربدر خوار ہونا پڑیگا میرے علاقہ جو کہ دیہات کا علاقہ ہے میں واقع تھانہ اسی کے قریب دیہاتوں کا ایک تھانہ ہے جہاں علاقہ کے سیاسی باوے اپنے من مرضی کے ایس ایچ اوز کو تعینات کرواتے ہیں اور پھر انکے کارندے علاقہ میں سب سے بڑے شرفاء گردانے جاتے ہیں اور اگر کوئی غریب جرم کا ارتکاب کربیٹھے خواہ اس نے اپنے بچوں کی بھوک سے مجبور ہوکر آٹا چوری کیا ہو تو اسے پکڑنے میں میرے تھانہ کی پولیس کو چادر چاردیواری کا تقدس بھی یاد نہ رہیگا اور اس سے بڑا جرم کوئی سیاسی چمچہ کڑچھا کرلے تو اسے جب تک سیاسی باوے چاہیں اپنے ڈیروں میں بٹھائے رکھیں۔
منشیات کے اڈے قحبے چلانے والے دلال پویس افسران کے نزدیک معزز اور دووقت کی روٹی کے چکر میں مصروف غریب آدمی کسی شریف کے اشارہ ابرو پر مجرم اسی روش نے ہزاروں ملزمان کو عادی مجرم بنادیا اور اگر اختیارات کو جائز استعمال کرنے کا عادی پولیس افسر علاقہ میں تعینات ہوجائے اور لوگوں کو اس بات کا صرف ادراک دیا جائے کہ جرم پر سزا ملے گی تو نوے فی صد جرائم ختم ہوجائینگے مگر ایسا کون کرے جو صاحب اقتدار ہیں انکو استثنیٰ حاصل ہے اور جو اہل زر ہیں۔
وہ ہر جرم پر قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر دکھا کر ہر سیاہ سفید کرلیتے ہیں اور یہ وہ تصویر ہے جسکا ہر پاکستانی ملازم احترام کرتا ہے حیا کرتا ہے اور اسے پوری عزت دیتا ہے اور اس تصویر کے اصل کا حق بھی ہے کیونکہ ملک بنانے والا جب خود چل کر کسی چھوٹے افسر کے گھر آجائے تو پھر اس پر احترام لازم ہوجاتا ہے آخر بابائے قوم نے ہی تو ہمیں یہ ریاست دی ہے اگر آج انکی تصویر کا احترام نہ کیا تو کل انہیں کیا جواب دینگے میرے ملک کی سیاست کا حال مت پوچھو گھری ہے طوائف اک تماش بینوں میں والسلام۔