تحریر : اختر سردار چودھری آزادی کا سورج طلوع ہوا تو مہاجرین کے قافلے تواتر کے ساتھ پاکستان آ رہے تھے۔ان میں سے اکثر اپنے عزیزوں کی جانوں کی قربانی دے کرجمع پونجی سے محروم ہو کر آرہے تھے۔ بہت سے ایسے تھے جو ہندوستان میں پھنسے ہوئے تھے اور پاکستان آنے کے متمنی تھے مگر بلوائیوں کے ڈر سے سفر کرنے سے بھی ڈرتے تھے۔ ایسے میں ہندوستان کے کسی دورافتادہ گائوں سے وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو ان کے ایک رشتہ دار کا خط ملا اس میں لکھا تھا،ہم پاکستان آنا چاہتے ہیں مگر یہاں پھنسے ہوئے ہیں آپ پاکستان کے وزیر اعظم بھی ہو اور ہمارے رشتہ دار بھی، اس لئے اپنے اختیارات استعمال کر تے ہوئے ہمیں جلد از جلد یہاں سے نکلواسکتے ہیں ۔ وزیر اعظم پاکستان نے جواب دیا۔پاکستان میں آنے والا ہر مہاجر میرا رشتہ دار ہے اور ہر کوئی اپنی باری سے آئے گا۔
ہم کوششوں میںمصروف ہیں ،جب تمہاری باری آئے تو تم بھی آجانا۔پاکستان بننے کے بعد نئی نئی مملکت کے لئے بے پناہ مسائل اور دفاع کی تمام تر ذمہ داری قائد ملت لیاقت علی خان کے کندھوں پر آگئی۔ انہوں نے بہت خوش اسلوبی سے ان ذمہ دایوں کو احسن طریقے سے نبھایا۔ انہوںنے پاکستان کے دفاع میں بھر پور کردار ادا کیا۔اس سلسلے میںان کا ایک ” مکا” ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔جولائی 1951 ء میں انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے فضا میں ہاتھ لہرایا اور کہابھائیو یہ پانچ انگلیاںجب علیحدہ ہوں تو ان کی قوت ختم ہو جاتی ہے۔جب مل کر” مکا “بن جائے تو دشمن کا منہ توڑ سکتا ہے۔ لیاقت علی خان سچے پاکستانی تھے۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان ہندوستان کے علاقے کرنال میں پیدا ہوئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی اور 1922ء میں انگلینڈ بار میں شمولیت اختیار کی۔ 1923ء میں ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ 1936ء میں آپ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بنے۔ آپ قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست تھے۔آپ کرنال کے ایک نامور نواب جاٹ خاندان میں پیدا ہوئے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان، نواب رستم علی خان کے دوسرے بیٹے تھے۔ آپ 2 اکتوبر، 1896ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ محمودہ بیگم نے گھر پر آپ کے لئے قرآن اور احادیث کی تعلیم کا انتظام کروایا۔
Liaquat Ali Khan
1918ء میں آپ نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ 1918ء میں ہی آپ نے جہانگیر بیگم سے شادی کی۔ شادی کے بعد آپ برطانیہ چلے گئے جہاں سے آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔1923ء میں برطانیہ سے واپس آنے کے بعد آپ نے اپنے ملک کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کروانے کے لئے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ 1924ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں ہوا۔ اس اس اجلاس کا مقصد مسلم لیگ کو دربارہ منظم کرنا تھا۔ اس اجلاس میں لیاقت علی خان نے بھی شرکت کی۔1926ء میں آپ اتر پردیش سے قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1940ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہونے تک آپ یو پی اسمبلی کے رکن رہے۔1932ء میں آپ نے دوسری شادی کی۔ آپ کی دوسری بیگم بیگم رعنا لیاقت علی ایک ماہر تعلیم اور معیشت دان تھیں۔ آپ لیاقت علی خان کے سیاسی زندگی کی ایک بہتر معاون ثابت ہوئیں۔
جب لندن میں منعقد تینوں گول میز کانفرنسیں ناکام ہو گئیں اور قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوستان کی سیاست سے دلبر داشتہ ہو کر مستقل لندن میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔تو اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے کوئی متحرک اور فعال لیڈر موجود نہیں تھا۔ یہ دور مسلمانوں کے لئے انتہائی کسمپرسی اور بے بسی کا تھا۔ ایسے نازک وقت میں لیاقت علی خان کی قدآور شخصیت سامنے آئی۔ 1933 ء میں وہ قائد اعظم سے ملاقات کرنے لندن گئے۔ انہوں نے دانشمندانہ اور مسحور کن انداز میں دلائل دیئے کہ قائد اعظم دوبارہ مسلمانان ہند کی رہنمائی کے لئے ہندوستان آنے کو تیار ہو گئے۔
یہ لیاقت علی خان کاپاکستان کی تشکیل کے حوالے سے ایک زبردست کام تھاکیو نکہ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو قائد اعظم دیا اور قائد اعظم نے آخر کار انہیں پاکستان دیا کو ن کہ سکتا تھا قائد اعظم اگر ہندوستان واپسی کا فیصلہ نہ کرتے تو آج ہماری قومی تاریخ کا کیا حال ہوتا؟قائد اعظم نے واپسی پر مسلم لیگ کی تنظیم نوکی اور ان ہی کی ایما ء پر لیاقت علی خان مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری بنے۔ لیاقت علی خان نے اس محنت اور لگن سے کام کیا کہ قائد اعظم نے مسلم لیگ کے کراچی کے اجلاس منعقد ہ 26 دسمبر1943 ء میں یہ ارشاد فرمایا،لیاقت علی خان میرے دست راست ہیں۔جوتحریک پاکستان اور مسلم لیگ کے لیے دن رات کام کرتے ہیں۔
Budget
یہ حقیقت شاید چند افراد کو معلوم ہو کہ انہوں نے مسلم لیگ کا کتنا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ان کے متعلق مجھے یہ کہتے ہوئے خو شی محسوس ہو رہی ہے کہ انہیں ہندوستان کے تمام مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہے جب مسلمانوں کا مطالبہ آزادی زور پکڑنے لگا۔تو برطانوی حکومت نے 1946 ء کے انتخابات کے بعد ایک عارضی حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اسے اقتدار باآ سانی منتقل کیا جا سکے۔انہوں نے28 فروری 1947 ء کو متحدہ ہندوستان کا وہ بجٹ پیش کیا۔ جو غریبوں کے بجٹ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس بجٹ کی خاص بات یہ تھی کہ غریبوں کی اشیاء پر ٹیکس ختم کر کے غیر ضروری اشیاء پر ٹیکس لگائے گئے تھے۔ جن کے نفاد سے ہندو صنعتکاروں اور ساہو کاروں میں کھلبلی مچ گئی۔ مگر غریبوں کا دم بھرنے ولے وزیر خزانہ نے غریبوں کے مفاد کی قیمت پر کسی بھی سمجھوتے سے صاف انکار کر دیا۔
3 جون 1947 ء کے قیام پاکستان کے اعلان کے بعد 11اگست1947 ء کو پاکستان کا پرچم منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔ اس موقع پر ان کے خیالات ان کی حب الوطنی اور جمہوریت پسندی کی روشن دلیل ہیں۔ انہوں نے کہا۔ جناب عالی کسی قوم کا پرچم محض کپڑے کا ٹکڑا نہیں ہوتا۔وہ ان لوگوں کی آزادی اور مساوات کا ضامن ہوتا ہے۔ جو اس سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں۔یہ پرچم شہریوں کے جائز حقوق کی حفاظت اور پاکستان کا دفاع کرے گا۔ 1951 ء ہی میں انہوں نے کہا تھا،میرے پاس نہ دولت ہے اور نہ جائیدار صرف ایک جان ہے جوکہ چار برس سے پاکستان کی لیے وقف ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر پاکستان کی حفاظت کی لیے قوم کو خون بہانا پڑا تو لیاقت علی خان کا خون اس شامل ہو گا۔ ساری دنیا کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لیجئے ۔جو آدمی اپنے قول کا جتنا پاسدار ہے۔وہ اتنا ہی کامیاب ہے۔ وہ اتنا ہی بڑا ہے۔ یہ کامیابی اور بڑائی لیاقت علی خان کے حصے میں بھی آئی۔انہوں نے جو کہا تھا قدرت نے اسے پورا بھی کردیا ۔
16اکتوبر 1951ء کا بہت افسوسناک دن تھا ۔ راولپنڈی کمپنی باغ میں ایک بہت ہی اہم جلسہ ہونے والا تھا،جلسہ گاہ میں زبردست چہل پہل تھی۔ٹھیک چار بجے وزیراعظم جلسہ گاہ میںپہنچے۔لو گ اپنے وزیراعظم کا خطاب سننے کے لیے پر جوش تھے۔ وزیر اعظم تالیوں اور نعروں کی گونج میں وہ ڈائس پر آئے اور ابھی انہوں نے ”برادران اسلام ”کے الفاظ ہی ادا کئے تھے کہ ایک گولی سنسناتی ہوئی آئی اور ان کے سینے پر لگی جس نے انہیں کچھ اور کہنے نہیں دیا۔وہ گر گئے۔ٹوٹتی ہوئی سانسوں سے سننے والوں نے جو الفاظ سنے وہ یہ تھے۔ خدا پاکستان۔۔۔کی۔۔۔ حفاظت کرے۔(خدا پاکستان کی حفاظت کرے )۔ جیتے جی پاکستان کا درد اور مرتے وقت بھی اس کی فکر رکھنے والے یہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان تھے۔ ہندوستان میں تھے تو نواب تھے۔ مگر جب پاکستان آئے تو خالی ہاتھ تھے، بہت سارے دوستوں نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ بھی ہندوستان میں چھوڑی ہوئی جائیداد پاکستان میں حاصل کر لیں، مگر ان کا جواب تھا۔جب سب کو ان کا چھوڑا ہواحق مل جائے گا ۔تب میں بھی لے لوں گا۔