واشنگٹن (جیوڈیسک) وائٹ ہاؤس کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ گو کہ روس کے ساتھ دوطرفہ بات چیت کا سلسلہ معطل ہے لیکن “اہم ملکوں” کے ذریعے شام کے معاملے پر بات چیت جاری ہے۔ امریکہ اور روس کے اعلیٰ سفارتکار شام میں امن عمل سے متعلق معاہدے کی کوششوں کے سلسلے میں ہفتہ کو سوئٹزرلینڈ میں ملاقات کر رہے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف لوزان میں ہونے والی اس ملاقات میں کوشش کریں گے کہ شام کے شمالی شہر حلب میں کئی ہفتوں سے جاری بمباری کو ختم کرنے پر بھی تبادلہ خیال کریں۔ لاوروف نے جمعہ کو کہا تھا کہ انھیں بات چیت کے اس تازہ دور سے کوئی “خاص توقعات” نہیں ہیں۔
ہفتہ کو ہی موقر امدادی تنظیموں نے حلب کے مشرقی حصے میں 72 گھنٹوں کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یہاں سے بیماروں اور زخمیوں کو نکالا جا سکے اور محصور علاقوں تک خوراک اور طبی امداد پہنچائی جا سکے۔
شہر کا یہ حصہ باغیوں کے زیر تسلط ہے جہاں روس کی حمایت یافتہ شامی فورسز بمباری کرتی آرہی ہیں۔
شہر کا مغربی حصہ سرکاری فورسز کے کنٹرول میں ہے اور حکام یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اس علاقے پر باغیوں کی طرف سے گولے داغے جاتے رہے ہیں۔
امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی روس اور اس کے اتحادی شام پر اسپتالوں اور اقوام متحدہ کے امدادی قافلوں پر بمباری کا الزام عائد کرتے ہوئے انھیں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے رہے ہیں۔
شام اور روس کا کہنا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ باغیوں کو نشانہ بنانے کے دوران شامی اور روسی فورسز بچوں سمیت شہریوں کو بھی ہدف بنا چکی ہیں۔
روس نے شہریوں پر حملوں کے الزامات کو یہ کہہ کر مسترد کیا ہے کہ وہ صرف “دہشت گردوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ دہشت گرد کی اصطلاح شام اور روس بشار الاسد کے مخالفین کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
امریکی صدر براک اوباما نے شام کی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے جمعہ کو اپنی قومی سلامتی کی ٹیم سے ملاقات کی تھی۔
وائٹ ہاؤس کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ گو کہ روس کے ساتھ دوطرفہ بات چیت کا سلسلہ معطل ہے لیکن “اہم ملکوں” کے ذریعے شام کے معاملے پر بات چیت جاری ہے۔
لوزان میں ہونے والے اجلاس میں ترکی، سعودی عرب، قطر، ایران اور شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے بھی شریک ہو رہے ہیں۔