تحریر: حذیفہ شکیل ،شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسیٹی علم دوست، محب وطن، مفکر ملت، معمار قوم، جس کی تہذیب اعلی، جس کی تعلیم ارفع، جو بلند اخلاق کا حامل، جو اپنے نظریۂ فروغ تعلیم میں کامل، دنیائے علم و ادب جنہیں آج سر سید احمد خاں کے نام سے جانتی ہے، جن کا مقصد حیات تعلیم و تہذیب اور اخلاقی اقدار سے نئی نسل کو آراستہ و پیراستہ کرنا، ان میں تعلیمی بیداری اور دلچسپی پیدا کرنا تھا۔
پنڈت جواہر لال نہرو نے اس عظیم المرتبت، ہمہ جہت اور ہمہ گیر شخصیت کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ”سرسید کا یہ فیصلہ کہ تمام کوششیں مسلمانوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے پر صرف کردینی چاہئے، یقینا درست اور صحیح تھا، بغیر تعلیم کے میرا خیال ہے کہ مسلمان قومیت کی تعمیر میں کوئی مؤثر حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ ”( میری کہانی : ٣/٣١٥)
سر سید احمد خاں کی زندگی کا مطالعہ ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ وہ فروغ تعلیم کے تئیں کس قدر حساس تھے، وہ علوم کے فروغ کے ذریعے ہندوستانی عوام کو اعلی تہذیب و تمدن سے مزین کرنا چاہتے تھے، ان کا تصور تعلیم یہ تھا کہ مسلمان تمام علوم میں مہارت حاصل کریں اور اسی نظریے اور تصور کے تحت بہت سی قابل قدر اور نمایاں کوششیں سر سید تحریک کے زیر اثر وجود میں آئیں، 1882میں جب ہنٹر کمیشن کی رپورٹ کے ذریعے یہ بات سامنے آئی کہ مسلمان تعلیمی اعتبار سے پسماندگی کے شکار ہیں اور اعلی تعلیم سے محروم ہیں تو اس پس منظر میں سر سید نے 1886میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمان تعلیم یافتہ ہوسکیں، پیش آمدہ مسائل اور نت نئے چیلنجز کا سامنا کرسکیں، اس کے قیام اور اس کے بلند مقاصد پر اگر ہم نظر ڈالیں تو اس کی معنویت و افادیت آج بھی ہمیں قائم و دائم نظر آتی ہے، اس کے چند اہم اور زریں مقاصد پر آئیے ہم غور کرتے ہیں۔
Golden Objectives
١ـ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے جو انگریزی ادارے مسلمانوں کی طرف سے جاری ہوں ان میں مذہب کے حالات کو دریافت کرنا اور بقدر امکان عمدگی سے اس تعلیم کے انجام پانے میں کوشش کرنا۔ ٢ـ جو لوگ علوم مشرقی اور دینی تعلیم ہماری قوم کے علماء سے حاصل کرتے ہیں اور اس کو انہوں نے اپنا مقصد قرار دیا ہے، ان کے حالات کی تفتیش کرنا اور ان میں اس تعلیم کے قائم اور جاری رکھنے کی مناسب تدابیر کا عمل میں لانا ٣ـ مسلمانوں کو نہایت اعلی تعلیم سے ہمکنار کرنا، ان کے فلاح و بہبود کی ہر ممکن کوشش کرنا، اس کی تدبیروں کو سوچنا اور ان پر بحث کرنا۔ ٤ـ جو مکاتب عام مسلمانوں کے بچوں کے لیے قرآن مجید پڑھنے کے تھے اور جو سلسلہ قرآن مجید کے حفظ کرنے کا رائج تھا اور وہ اب راہ تنزل اختیار کرچکا ہے، ان کے حالات کی تفتیش کرنا، ان کے قائم رکھنے اور استحکام دینے کے لیے عملی اقدام بھی کرنا۔
ان تمام زریں اور روشن مقاصد پر غور کرنے سے ہمیں سر سید کے اعلی نظریۂ فروغ تعلیم کا پتہ چلتا ہے اور اس معاملے میں ان کے حد درجہ حساس ہونے کا نمایاں احساس بھی ہوتا ہے، بقول سرسید ” تعلیم ہی تمام ترقیوں کی اور بلندیوں کی معراج ہے، پہلے علم کے خزانوں کو قابو میں کر لو پھر دنیا کی کوئی بھی دولت حاصل کی جاسکتی ہے۔ علم ہی ہے جو انسان کی ذہنی اور فکری سطح کو بلند کرتا ہے، سوچنے، سمجھنے اور میدانی عمل میں کچھ کر گزرنے کا یقین اور عزم و حوصلہ عطاء کرتا ہے۔ مسائل کی پیچیدگیاں خود بخود سلجھنے لگتی ہیں اور نشان منزل صاف صاف نظر آنے لگتا ہے، یہ تعلیم ہی ہے، جو ذہن انسانی کو اس کی جہت عطاء کرتی ہے، مسائل کا ہر رخ سے تجزیہ کرنے کی مہارت پیدا کرتی ہے، مسائل کے حل کرنے کے مختلف طریقوں سے روشناس کرکے بہترین حل کو بروئے کار لانے کی قوت عطاء کرتی ہے۔” غرضیکہ سر سید نے علم کو دور حاضر کی ایسی اساس قرار دیا ہے، جو اپنے حاملین کو مسابقت میں برتری عطاء کرتی ہے اور اسے میدان عمل میں کامیاب و کامران بناتی ہے۔
مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے سر سید احمد خاں نے جو اقدامات کئے ہیں، اس کی مثال کم دیکھنے کو ملتی ہے، انہوں نے آج سے تقریبا پونے دو صدی قبل یہ اندازہ لگایا تھا کہ تعلیم کے بغیر مسلمانوں کی ترقی ایک ناممکن شئے ہے، آج اتنے زمانے کے گزر جانے کے بعد دنیا کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ سرسید اپنے فیصلوں اور ارادوں میں کس قد رمضبوط، مستحکم اور درست تھے اور اس دور کے نامساعد اور دشوار گزار حالات کے باوجود انہوں نے اپنی پوری زندگی تعلیمی مشن کو آگے بڑھانے اور اسے فروغ دے کر اوج کمال تک پہنچانے میں صرف کردی، ان میں تعلیم و تربیت کے تمام مسائل حل کرنے کی خداد صلاحیت بھی موجود تھی۔
علی گڑھ تحریک کا بنیادی مقصد قوم کو تاریکی کے گڑھے سے نکالنا تھا، سر سید نے اپنے ہدف کی تکمیل کے لیے متعدد لائحہ عمل تیار کیا اور انہیں عملی جامہ بھی پہنایا، انہوں نے 1866میں سائنٹفک سوسائٹی نامی اخبار نکالا ، اس اخبار کا اہم مقصد یہ تھا کہ اس کے ذریعے مذاہب کے مابین تقابلی مطالعہ کی راہ استوار اور ہموار ہو، سر سید کی تصانیف میں آثار الصنادید کا بڑا نمایاں مقام ہے۔ اور شاہکار کی حیثیت حاصل ہے۔
Madarsa Uloom AMO
آج ان کی اس محنت و مشقت، جذبے، لگن، ایثار و قربانی اور فروغ تعلیم کی راہ میں کئے گئے اقدامات کی کوئی بہترین، اعلی اور نایاب نظیر دیکھنا چاہے تو وہ 24 مئی 1875 میں مدرسة العلوم (اے، ایم، او) کے افتتاح کی شکل میں کی گئی کاوش کو دیکھنے جو سر سید احمد خاں کے انتقال 1898کے 22سال بعد 1920میں نام کی تبدیلی کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کی حیثیت پوری دنیا میں مشہور و معروف ہوئی۔
سر سید کا اگر بنیادی مقصد تعلیم کا فروغ تھا تو وہیں نئی نسل کی ذہنی تربیت بھی مقصود تھی، چنانچہ ان کی زندگی کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو وہ بنیادی طور پر ہمیں ایک بے مثال مربی و معلم نظر آتے ہیں، تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ اخلاقی قدروں کی حفاظت بھی ان کے پیش نظر تھی، اسی مقصد کے تحت نے لندن سے واپسی پر 1870میں تہذیب الاخلاق نامی رسالہ نکالا، اس رسالے کا مقصد مسلمانوں کے اندر سیاسی، سماجی، تعلیمی، تہذیبی، اخلاقی اور معاشرتی اصلاح تھا، اسی وجہ سے اصلاح کے باب میں سر سید کے اقدامات کی تحسین کی جاتی ہے اور آج کے اس دور میں جبکہ مادیت کا جنون سر چڑھ کر بول رہا ہے، اخلاقی اقدار کی پامالی سر عام ہورہی ہے، ایسی معاشرتی صورت حال میں اخلاقیات کے باب میں ان کے صحتمند نظریے کو اپنا کر اس کو معاشرے میں نافذ کرنا بے حد ضروری ہے۔
ان دانشوران ملت سے میری خصوصی گزارش ہے، جو سر سید کے تعلیمی مشن کو آگے بڑھا کر ان کے وقار و عظمت کا حق ادا کررہے ہیں کہ وہ ان کے اس مشن اور اس پیغام کو بھی عام کریں تاکہ نئی نسل اخلاقی اقدار سے روشناس ہوسکے اور سر سید احمد کی یہ تحریک بھی سماج کو فائدہ پہنچا سکے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صالح اقدار و روایات کو چھوڑ کر ہم حقیقی ترقی کے نشانے کو پاسکیں۔
Sir Syed Ahmed Khan
سر سید کے شاندار کارناموں کی بناء پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، جس کے ہر لحاظ سے وہ مستحق اور حق دار ہیں اور ممنون قدم کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ محسن قوم کو فراموش نہ کرے، اس کے ساتھ ہی موجودہ اہل علم طبقے کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ آج ملت کی موجودہ تعلیمی صورت حال کو پیش نظر رکھ کر خواندگی اور فروغ تعلیم کی مہم چلائے، اپنی تعلیمی تحریک کو پسماندہ طبقوں تک لے جائے اور پوری ملت کو تعلیم یافتہ بنانے سلسلے میں سر گرم عمل ہو، یہ طرز عمل صحیح معنی میں سر سید کے لیے خراج عقیدت ہے اور قوم ملت کے لیے سرمایۂ سر بلندی، تعلیم یافتہ طبقے کو اپنے اندر اس احساس کی ذمہ داری کو پیدا کرنا ہوگا، تبھی سر سید کا خواب شرمندئہ تعبیر ہوگا۔
سر سید احمد خاں 17اکتوبر 1817 کو پیدا ہوئے اور علم و ادب کا یہ عظیم سپوت قوم و ملت کی خدمت کرتے ہوئے 27مارچ 1898کو اس دار فانی سے رخصت ہوا۔