تحریر : منظور احمد فریدی اللہ جل شانہ کی لامحدود حمد وثناء اور آقا کریم راحت قلب و سینہ تاجدار عرب و عجم محمد مصطفیۖ کی پاک ذات پر درودوسلام کے کروڑوں بار نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم عرض کناں ہے کل ملکی و غیر ملکی میڈیا پر ایک بھارتی خبر کے مطابق بھارت میں ایک ہی دن میں ایک ہزار کے قریب دلتوں (نچلی ذات کے ہندو) نے ہندوازم چھوڑ کر بدھ مت مذہب اختیار کرلیا خبر پڑھتے ہی سر اس مالک بے نیاز کے حضور سجدہ میں بے اختیار چلا گیا جس نے ہمیں اپنی رحمت سے مسلمان پیدا فرمایا اور پھر رحمتوں کے خزینے اپنے حبیب محمد مصطفیۖ کی امت میں پیدا فرماکر احسان عظیم فرمایا بے شک اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کے پیروکاروں کو دنیا و آخرت میں اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل ہے آج اگر مسلمان دنیا میں تکالیف اور مصیبتوں کاشکار ہے تو اسکی وجہ بھی اپنے مذہب سے بیگانگی ہے اور اللہ کریم مسلمان کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھٹکا لگانے کے لیے زمین پر ایسے واقعات کا ظہور فرماتا ہی رہتا ہے۔
اسلام جس کی بنیاد اللہ کی توحید ہے اللہ نے جتنے بھی نبی مرسل پیغمبر بھیجے انہوں نے پہلا جو پیغام اپنی امت کو دیا وہ قولو لاالہ الاللہ ہی ہے لوگو کہہ دو مان لو کہ اللہ ایک ہے کوئی انسان جب اس ایک اللہ کو مان لیتا ہے تو اللہ اسے اپنی شان کے مطابق زمین کے سارے خدائوں سے بے نیاز کردیتا ہے اسلام کی ابتدا جناب آدم علیہ السلام سے ہوئی اور اسکی تکمیل جناب محمد مصطفی ۖ نے فرمائی عیسیٰ علیہ السلام سے نبی آخر الزمان تک درمیان میں جو وقفہ ہے اس میں اسلام کے پیروکاروں نے بھی اسکا حلیہ بگاڑا ہوا تھا اہل مکہ ہی ایک خدا اللہ کو بھی مانتے تھے اور اللہ کے حضور سنت ابراہیمی قربانیاں بھی پیش کرتے تھے مگر جاہلیت میں وہ اس قدر آگے جاچکے تھے کہ قربانی کے جانوروں کا خون کعبہ شریف کی دیواروں پر چھڑک کر وہ اللہ کو راضی کرتے تھے بیت اللہ کو عبادت کا مرکز مانتے تھے اور عبادت کے لیے اسی کی عمارت میں بت رکھے ہوئے تھے۔
اللہ نے اپنے وعدہ کے مطابق جب اپنے حبیب کبریا کو مبعوث فرمایا تو یہی جاہل زمانہ کے امام بنے تاریخ وہ پہلو ہے جو مذہب ومسلک اور رشتہ داریوں سے قطعی دور حقائق کا مشاہدہ کرتی ہے اسلامی کتب میں تو تفصیل کے ساتھ موجودہ حالات کا ذکر ہے مگر جب مذہب کا اعتراض ہوتو پھر تاریخ کو کھول لیں اور اسکا اللہ کی لاریب کتاب قرآن سے موازنہ کرلیں تو اسلام کے جملہ فرمودات عین قانون قرآن کے مطابق تاریخ کے سینہ سے مل جائینگے آقاۖ کا حیات طیبہ میں تبلیغ اسلام کے لیے عرب کے قبائل کو دعوت دینا اور اس دعوت کے جواب میں انسانی قدروں کے علمبرداروں کے الفاظ گواہ ہیں کہ اللہ اور اسکے حبیب نے ہی فقط تمام انسانوں کو برابری کا درس دیا ورنہ دنیا کے تمام طبقات میں ادنیٰ اور اعلیٰ کا تصور اب بھی موجود ہے آقا نامدارۖ نے قریش کے ہی ایک قبیلہ کو دعوت فکر دی تو انہوں نے غور و غوض کرنے کے بعد آپۖ کے ہاں آنے کا عندیہ ظاہر کیا جسے قبول کرلیا گیا۔
Hazrat Mohammad PBUH
قریش کے وہ سردار جب آپ ۖ کی پاک بارگاہ میں آئے تو صحابہ کا یک ہجوم آپکے گرد جمع ہے جن میں انہیں کے آزاد کردہ غلام حضرت بلال حضرت سلمان فارسی اور دیگر ایسے صحابہ جنہوں نے عشق مصطفوی میں صعوبتوں کے پہاڑ تو اٹھا لیے مگر قدم متزلزل نہ ہوئے موجود تھے وہ سردار اب کھڑے رہے کہ ہمارے لیے کوئی خاص نشست کا اہتمام ہوگا مگر ایسا ہوا نہ ہونا تھا وہ تنک کر بولے کہ ہمیں تمہارے مذہب اسلام پر یو اعتراض نہیں مگر یہ گوارہ نہیں کہ وہیں چٹائی پر بلال بیٹھا ہو اور وہیں ہم آکر بیٹھ جائیں ہمارے لیے کچھ الگ انتظام فرما لیں تو ہم مسلمان ہوجاتے ہیں یہ اسلام کا ابتدائی دور ہے ابھی اسلام کو افرادی قوت کی سخت ضرورت ہے اور سرداران قریش اگر اسلام میں داخل ہوتے ہیں تو کئی مخالفین کا منہ بند ہوتا ہے مگر آقا کریم نے خاموشی اختیار فرمائی چند لمحات نہ گزرے تھے کہ اللہ کا پیغام آگیا اے میرے محبوب اپنے ان غلاموں کو احساس کمتری میں ہرگز نہ ڈالیں بلکہ مطالبہ کرنے والوں کو کہہ دیں کہ مجھے تمھارے مسلمان ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ایسی شرائط کو اپنے پاس رکھو اور ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے۔
آج موازنہ کریں ہندو ازم سے اسی ایک واقعہ کا ورنہ ہزارہا ایسے واقعات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں جن میں کوئی آقا نہیں کوئی غلام نہیں خطبہ ة الوداع میں جب اللہ نے اسلام کو اپنا پسندیدہ مذہب فرما دیا تو اپنے خطبہ میں اسکے داعی نے جو الفاظ بولے وہ آج بھی انسانوں کو اسلام کی طرف بلا رہے ہیں اور تا قیامت بلاتے رہینگے آپۖ نے فرمایا کہ خبردار کسی عربی کو عجمی اور کسی عجمی کو عربی پر کسی گورے کو کالے پر یا کالے کو گورے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں تمام انسان اللہ کی نظر میں ایک ہیں تم سب مسلمان آپس میں بھائی ہو اور اللہ کے نزدیک وہی اچھا ہے جو تقویٰ میں تم سے آگے ہے تمھاری عزتیں تمھارا خون ایک دوسرے پر حرام ہے تمھارا مال جب تک آپس میں بیع نہ کرلو حرام ہے ایک دوسرے پر اور میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا۔
آپکے نائبین حضرت ابوبکر صدیق حضرت عمر فاروق جناب عثمان غنی اور حیدر کرار جناب علی رضوان اللہ کریم سب نے اسی بات کا درس دیا اور خود اپنے کردار سے اس کو ثابت کیا خود بھوک برداشت کی اور اپنے رعایا کو کھلایا خود پیدل ہو امت کا امام اور سواری پر غلام ہو تو ایسے واقعات صرف اسلام کی تاریخ میں ہی ملینگے دنیا کا کوئی اور مذہب بھی ایسی برابری کا درس نہیں دیتا جو اسلام دیتا ہے عیسائیت میں بھی درجہ بندی بدھ مت میں بھی درجہ بندی اور ہندو ازم میں تو انسان سے انسان کے ہاتھ سے بنی ہوئی وہ مورتی مقدم ہوتی ہے جو اونچی ذات کے ہندوئوں کے بت خانہ میں پڑی ہو عقلی تقاضوں کے بھی منافی ہے کہ جب پوجا بتوں کی ہی کرنا ہے تو پھر ذات تو ایک ہی ہو گئی وہ نچلی ذات والے ہوں یا برہمن اور مرنے کے بعد بھی انجام ایک ہی ہو کوئی صندل کی لکڑیوں میں جل کر جہنم واصل ہو تو کوئی عام لکڑیوں کے ڈھیر سے چتا کو آگ لگائے یہ کیسی تقسیم ہے کہ جس سے زندگی میں درجہ بندیاں اور مرتے ہوئے سب راکھ واقعی اللہ کریم بڑا رحیم و مہربان ہے جس نے ہمیں اسلام جیسا انمول اور ایسا مذہب عطا فرمایا کہ مساجد میں ایک ہی صف میں وزیر اعظم بھی اور ایک بھکاری بھی اور کوئی الگ مسجد نہیں کوئی الگ قطار نہیں ایک ہی صف میں کھڑے ہوں محمود و ایاز پھر کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز انسانیت کے حقوق کے نام نہاد امریکہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں بھی رنگ نسل اور مذہب کے نام پر آج تک فساد برپا ہیں اور اسوقت تک رہیں گے جب تک لوگ اسلام میں داخل نہیں ہوجاتے اور یہ ہونا ہی ہے کیونکہ یہ میرے اللہ کا وعدہ ہے بھارتی دلتوں کا ہندو دھرم چھوڑنا مودی صاحب کی اوقات بھی ظاہر کرگیا سدا بادشاہی اللہ کی والسلام۔