تحریر : شاہ بانو میر ایک کتاب میں کہیں یہ تحریر تھا کہ پیپلز پارٹی اس کے اکابرین ایسے جہاندیدہ اور بین القوامی معیار کے سیاستدان ہیں جو پیچیدہ معاملات اور حالات کے باوجود نہ تو اپنا مزاج گرم کرتے ہیں اور نہ ہی سیاست کو ذاتی زندگی میں لا کر نیندیں حرام کرتے ہیں ـ پیپلز پارٹی والے سامنے لاتے ہی ایسے لوگوں کو ہیں جو خمیر میں سیاست رکھتے ہیں ـ یہ وجہ ہے کہ وہ چیختے چِلاتے نہیں بڑے سکون سے ہر اہم مسئلے کو گفت و شنید سے باوقار انداز میں حل کرتے ہیں ـ یہی وجہ ہے کہ وہ سیاست کی الجھی ہوئی نیم تاریک غلام گردشوں میں گھومتے پھرتے بآسانی راستہ تلاش کر کے باہر نکل آتے ہیں ـ نیا پاکستان نئے سیاسی قائد کے ساتھ قائد بھی کیسا وہی جو کہا جاتا تھا جوانوں کے دل کی دھڑکن جس پر کوئی الزام نہیں ہے جو دلیر بھی ہے اور نڈر بھی گونجتی آواز بھی ایسی کہ مد مقابل سیاسی حریف نوجوان کے سامنے بزرگ اور چچا ہیں۔
بلاول بھٹو جس کا نانا وہ انسان تھا جس کی آواز کی گونج نے اقوام متحدہ کو للکارا جس نے اس ملک کو ایٹم بم کا تحفہ دیا ـ جس نے پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کروا کے تہلکہ مچا دیا ـ جس نے اس ملک کو 73 کا آئین دیا ـ جس نے بے شعور لوگوں کو سیاسی شعور دے کر جگایا اور یہی وجہ ہے جو بھی سیاسی رہنما ہو لوگ اس کو نہیں اس کے پیچھے اپنے اس عظیم رہنما بھٹو کو دیکھتے ہیں ـ آج بھی بھٹو کا کرشمہ سندھ میں موجود ہے جو اس خاندان کے ساتھ ہوئے حادثات نے اور زیادہ بڑھا دی ہے ـ بھٹو کی پھانسی کے بعد سیاسی قیادت کی ذمہ داری بے نظیر بھٹو نے سنبھالی۔
باپ کو ناز تھا اپنی بیٹی کی ذہانت پر ـ سیاست بیبی نے کی مگر بہت سی خامیاں بھی موجود رہیں مگر بی بی شہید کی زندگی نے نیا موڑ اس وقت لیا جب ملک سے باہر جلاوطنی میں رہنا پڑا ـ ماں بھی تھیں اور عورت بھی ـ جلاوطنی نے جیسے تمام خوابیدہ حِِسوں کو بیدار کیا ـ ماضی میں کی گئی عوامی نا انصافیاں دامنگیر ہوئیں تو نئے عہد نئی سوچ کے ساتھ بی بی واپس آئیں معاہدہ کیا طے ہوا تھا؟ مگر ملک کے حالات کیا تقاضہ کر رہے تھے ؟ مٹی کا قرض ادا کرنا ہے لہٰذا ناخداؤں کو انکار کر دیا کہ اب وہ کرنا ہے جو عوام کا حق ہےـ سیاسی سودے بازی نہیں کرنی یہ فیصلہ جلاد صیادوں کا کہاں منظور تھا بڑی سہولت سے کامیابی سے بی بی کو راستے سے ہٹا دیا گیاـ وقت کبھی نہیں ٹھہرتا۔
Bilawal Bhutto and Benazir Bhutto
2007 میں ایک ماں اپنے بچوں سے جُدا ہوئی آج اسی جگہ سے بی بی شہید کے صاحبزادے نے اپنے نانا اور اپنی ماں کے سیاسی سفر کو از سر نو شروع کیا اور وہ بھی اس شان سے کہ پورا ملک جیسے پیپلز پارٹی کو بھٹو کے دور میں دیکھنے لگا ـ بھٹو کا جانشین بی بی کا لخت جگر شہیدوں مزاج کے کچے پن کو اور طبیعت کی جولانی کو پارٹی کے بڑے جہاندیدہ سیاستدانوں نے مل کر ایسا تربیتی کورس دیا کہ کئی ماہ پہلے تقریر میں بچگانہ انداز اختیار کرنے والا آج اپنے سامنے کسی کو اپنا سیاسی حریف نہیں پاتا ـ اس کی عمر میں اتنا سیاسی شعور اتنا عزم کیسے ممکن ہوا وجہ ہے کہ ایسی خوں ریز سیاسی تاریخ واقعی کسی اور سیاسی رہنما کے پاس نہیں ہے ـ کراچی آزاد ہوگیا قفس کے قفل کھل گئے جبھی تو تمام سیاسی پرندے اپنی اپنی بساط بھر اڑان بھر کر اپنے چاہنے والوں کو ماننے والوں کو اب آئے روز با رونق اجتماعات دینے لگے ہیں۔
آج شہدائے کارساز کو خراج عقیدت اس انداز میں پیش کیا گیا گویا کوئی تہوار ہو وجہ اسکی یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کو عرصہ دراز کے بعد اتنا ہجوم اپنے ساتھ دیکھنے کو ملا تھا ـ بھٹو واقعی زندہ ہے آج ایک بار پھر بھٹو کی قربانی کو یاد رکھنے والوں نے بڑی تعداد میں ریلی میں شمولیت اختیار کر کے ثابت کر دیا ـ وہ جنہوں نے 79 میں خون ناحق بہایا تھا آج اپنی کم عقلی کا ماتم کر رہے ہوں گے جس بھٹو کو زندہ رکھ کر پریشان اور کمزور کر سکتے تھے اس بھٹو کو مار کر نسل در نسل اسے اتنا مقبول مضبوط کر دیا کہ اس کے سامنے وہ بند باندھنے سے قاصر ہیں۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ سلجھا ہوا انداز بیاں جسے بے پناہ عوامی پزیرائی مل رہی ہے ـ اکابرین کے سیاسی داؤ پیچ سے مسلح ہو کر وہ سیاسی میدان میں جا اترا ہے جہاں اس کے سامنے بوڑھے کھلاڑی اور بزرگ نواز شریف انکل الطاف حسین موجود ہیں ـ جبھی تو کسی نے کہا تقریر میں بلاول کو بچہ کہنے والے ذرا ہاتھ ملا لیں طاقت کا انداذہ خود بخود ہو جائے گا ـ ہونا تو چاہیے تھا کہ آج کارساز کے شھداء کیلئے انتہائی رقت طاری کی جاتی کہ ان کے محروم اہل خانہ کو کچھ تو سکون ملتا کہ ان کو پرسہ دینے والے ہیں ـ مگر بے پناہ خوشی اور رقص بھنگڑے کسی طور شھداء کیلئے تاثر پیش نہیں کر رہے تھے۔
Zulfiqar Ali Bhutto
افسوس ہوا کہ سیاسی جماعتوں نے اپنے کارکنان کو محض پتلیاں سمجھ رکھا ہے جومر جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا آج نئی تاریخ رقم ہوئی ہے عمران خان نے سیاست کو الگ انداز دے کر اس کی آنچ کو بڑھا دیا مگر اب انہی کے انداز میں انہی کو پُکار کر ایک نوجوان جوشیلا انہیں بوڑھا نحیف سمجھ کر مقابلہ پے للکار رہا ہے ـ بلاول نے پارٹی کے جامد نظام کو توڑ کر تیز رفتار کیا ہے ـ نوجوان قیادت اور پارٹی میں تبدیلی نے سندھ میں ترقی کا باب کھولا ہے ـ نئے وزیر اعلیٰ انتہائی متحرک اور فعال شخصیت ہیں جو اپنی پارٹی کو سست روی سے نکال کر برق رفتاری کا مظاہرہ کر رہے ہیں ـ سیاسی مخالفین پر تابڑ توڑ حملے کرتے ہوئے کراچی کی بڑی سیاسی جماعت کو سندھ کی تقسیم پر خود بکھیر دیا ایسا کہنا تھا بلاول بھٹو کا ـ سندھ کھپے مر سوں مر سوں سندھ نہ ڈیسوں کا نعرہ بھی بلند ہوتے ہم نے دیکھا ـ دریا کو کوزے میں یوں بند کرتے ہیں کہ جیالے تو ہیں ہی جیالے مگر نئی پود کو عمران خان سے گِلہ تھاکہ وہ بلاتے نوجوانوں کو ہیں اور پختون خواہ کی حکومت بوڑھے کے سپرد کر دی۔ لگتا ایسا ہی ہے کہ سیاسی شعور کی بحالی کے بعد بلاول کی ایسی شاندار اینٹری کسی اور کو کم مگر عمران خان کو ضرور مشکل میں ڈالے گی۔
عمران خان کسی تکُے کی آسمانی کرامت کی اور فوج کی جانب سے کسی بھی نادیدہ اشارے کی امید پر جلد بازی سے بے تُکے فیصلے کر رہے ہیں جو خود پارٹی ممبران کیلئے بھی تشویش کا باعث ہیں ـ آج منجھی ہوئی سیاست اور مدبرانہ محتاط 10 گھنٹے پر مبنی طویل دورانیے کا سیاسی شو نہ صرف بھرپور طاقت کا غمّاز رہا بلکہ بلاول کی سیاسی وابستگی اپنے نانا سے والدہ سے گفتگو کی مہارت سے چہرے کی بشاشیت سے اور لہجے کی مضبوطی سے چھلک رہا تھا ـبلاول جس سیاسی ننھیال سے تعلق رکھتا ہے اس خاندان کے اس جانشین نے نانا اور ماں کی طرح پارٹی کو آج پھر سے زندہ اور متحرک کر دیا ہے ـ بلاول کی ریلی کراچی سے آغاز کے بعد پورے پاکستان میں 2018 تک پھیلاؤ کا ارادہ رکھتی ہے ـلوگوں کا ریلی میں اتنی بڑی تعداد میں اپنے وسائل سے پہنچنا پارٹی مقبولیت کی نشاندہی کرتی ہے ـگاڑیوں بسوں موٹر سائیکوں سائیکلوں اور گدھا گاڑیوں کو بھی دیکھا گیا ـان غریب لوگوں کا یوں نکلنا اور پہنچنا ان کا جوش و خروش پارٹی سے گہری وابستگی اور جنون کا روشن پیغام ہے۔
پاکستان کی سیاست کی یہ گہما گہمی تحمل سے بردباری سے رواں دوان رہے تو روشن پڑھے لکھے وسیع القلب سیاسی دور کا پیش خیمہ ہے ـ لیکن اگر اس میں تشدد یا نفرت کی آمیزش کی گئی یا توڑ پھوڑ کر جلاؤ گھیراؤ کا عنصر شامل کر دیا گیا توسیاسی ناقدین ملک دشمن سیاست کا نام دے سکتے ہیں ـ یہ سیاست کامیاب سول حکومت کی عوامی ترقی کا راستہ روک کر اسے بند کرنا چاہتی ہے ـ اس وقت سرحدوں پر جاری بھارتی کشیدہ صورتحال میں یہ سیاسی عدم برداشت کے روئیے سیاسی کم ظرف سوچ کا اعلان ہیں ـ بلاول بھٹو کی آج کی سیاسی حکمت عملی کے بعد ان کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ماضی دہرایا گیا ـ بلاول بھٹو کا نام ہی کافی ہے۔