تحریر: حامد تابانی میری بیٹی نے میز پر سر رکھ دیا تھا ۔میں نے پوچھا ”بیٹا کیا بات ہے ؟” اس نے بتایا کہ آنکھیں دکھ رہی ہیں اور سوجن ہو رہی ہے۔اس کا یہ مسئلہ کافی عرصے تھا لیکن وقت نہ ملنے کے کارن اس بات کو نظر انداز کرتا گیاجو کہ اچھی بات نہیں۔اگلے دن میں نے چھٹی لی جیسا کہ میں نے اپنی بیٹی سے وعدہ کیا ترھا کہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جا وں گا۔میں تقریباََ اٹھ بجے گھر سے روانہ ہوا۔میرے ذہن میں اس ہسپتال کا نقشہ اور خاکہ دوسرے اداروں جیسا تھا وہ یہ کہ یہ ہسپتال بھی دوسرے اداروں کیطرح شاہا نہ انداز سے اپنے دن کا آغاز کرے گا۔اس لیے کوئی جلدی نہیں تھی۔اطمینان سے روانہ ہوا۔ایک کام بینک میں فارم جمع کرنا تھا ۔گارڈ سے مدعا بیان کیا ۔بداخلاق گارڈ نے درشتی سے 9 بجے آنے کو کہا۔وہاں سے مایوس روانہ ہوا۔بس سٹاپ پہنچ کر ویگن میں سوار ہوا اور تقریباََساڑھے اٹھ کو پہنچ گیادل میں یہ خدشہ سر اٹھا رہا تھا کہ نو بجے سے سے پہلے ہسپتا نہیں کھلتا انتظار کے لمحوں کو ایک انجان جگہ پر کیسے بتایا جائے۔لیکن جب ہسپتال کے مین گیٹ پر داخل ہوا تو حیرت کی انتہا ہوئی ہسپتال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا تھا ،اور ہسپتال کا عملہ اپنے اپنے کاموں میں مصروف پایا۔OPDکے لیے ایک مریض کی خدمات حاصل کی۔اپنے مطلوبہ جگہ پر ایک چشمے والا پر جوش اور خوش
اخلاق جوان نے ہماری سواگت کی۔بچی کانام اور عمر درج کر کے ہمیں پرچی دی اور پانچ منٹ کے بعد اس نے ہمیں ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں پہنچا دیا۔کمرے میں کل چار ڈاکٹر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے تھے ۔ڈاکٹر کو مرض کے بارے میں بتایا ۔اس نے تفصیلی معائنہ بذریعہ کمپیوٹر کیا پرچی پر کچھ تحریر کیا اور دوسرے ڈاکٹر کو ریفر کیا۔اس نے بھی کمپیوٹر والا عمل دہرایا اور پانچ نمبر کے کمرے میں جانے کو کہا۔
LRBT
جب مطلوبہ کمرے میں پہنچے تو ہم سے پہلے ڈاکٹر صاحب ایک مریض کا تفصیلی معائنہ کر رہے تھے۔جب ہماری باری آئی تو اس نے اطمینان سے آنکھوں کا معاینہ کیا۔اس نے کہا کہ یہ دوائی لکھ دی گئی ہے اسے استعمال کریں اگر آفاقہ نہیں ہوا تو پھر چشمے کا نسخہ لکھ دیں گیاور کے جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں جاکر دوائی حاصل کرے۔میڈیکل سٹور پہنچے تو سٹور کیپر نے پرچی کی ایک کاپی اپنے پاس رکھ دی اور ہمیں پرچی پر درج شدہ دوائی دی۔دوائی دینے سے پہلے اس نے دوائی والے بوتل کو کاغذ کے ڈبیہ سے نکالا اور ہمیں بغیر ڈبیہ کے دوائی دی ۔اور ہدایات دے کر ہمیں رخصت کیا۔میں سمجھ گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔اسے اپنے قوم کے بیمار ذہنیت کا ادراک تھا۔
20منٹ میں یہ سارا عمل اک پیسہ خرچ کیے بغیر ہوگیا اور ایک بار پھر ہم بس سٹاپ پر گاڑی میں سوار ہونے کے لیے کھڑے تھے۔ روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں مرد وزن اور بچے بوڑھے یہاں سے پیسے خرچ کیے بغیر مستفید ہوتے ہیں ۔شِفا اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن وسیلے ڈاکٹر ہیں۔اگر ڈاکٹر سپشلسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ نرم لہجے والا ہوتو دواکی اثر زیادہ ہوتی ہے۔ میرے ذہن میں یکدم سرکاری ہسپتالوں کا بھیانک ڈھانچا کھڑا ہوا۔جہاں پر مریض رلتے ہیں ،سسکتے ہیں اور آخر کار اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ڈاکٹروں کی بہتات ،نرسوں کی کثرت اور نان میڈیکل عملے کی فروانی لیکن نہ مریضوں کی حلت تسلی بخش ہوتی ہیں اور نہ صفائی کی۔میںبذات خود سرکاری ہسپتال میں کئی دن گزار چکاہوں۔دوائی کے بجائے نسخوں پر کام چلاتے ہیں ۔جتنا ہسپتال کا نام بڑا ہو تا ہے اتنی ہی کار کردگی خراب ہوتی ہے۔مریضوں سے جلد جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔مریضوں کو جھڑکتے ہیں ۔اور یہی ڈاکٹر دوپہر کے بعد پرائیوئٹ کلینک میں مسحائی اور پارسائی کے نمونے بن جا تے ہیں۔اورمیٹھے دھنوں میں تبدیلی کا نغمہ بج رہا ہے۔
Layton Rahmatulla Benevolent Trust
Layton Rahmatullah Benevolent Trustپاکستان کا سب سے بڑا غیر سرکاری ارگنائزیشن ہے جو پورے ملک میں اندھے پن کے خلاف جہاد میں مصروف ہے۔اس کا آغاز کراچی میں 1984ء میں ہوا۔اس کا مقصد آنکھوں کا بنیادی علاج ہے۔اس ہسپتال کے دو بانی ہیں۔ایک Graham Layton اور دوسراZaka Rahmatullah۔ ہسپتال کی شروعات دونوں نے پانچ پانچ لاکھ سے کیا۔اور آج ملک کے چاروں صوبوں اور بشمول آزاد کشمیر میں تقریباََ73 جگہوں پر دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہے۔ان میں سے 19ہسپتال ایسے ہیں جو جدید سازوسامان سے لیس ہیں۔
LRBTکوئی سرکاری ادارہ نہیں بلکہ مخیر حضرات کے تعاون سے چلنے والا ایک ٹرسٹ ہے جو بلا تفریق رنگ ونسل ،زبان اور مذہب کے لوگوں کی فلاح کے لیے کوشاں ہے۔یہاں مریض سے ایک روپیہ نہیں لیا جاتا۔یہاں کی صفائی قابل تعریف ہے۔ہسپتال کا عملہ انتہائی خوش اخلاقی اور نرمی سے مریضوں سے پیش آتا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہLayton Rahmatullahکا لگایا ہوا پودا ہمیشہ تروتازہ ہے۔