واشنگٹن (جیوڈیسک) ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن اور ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان بدھ کے روز ریاستِ نیواڈا کے شہر، لوس ویگاس میں تیسرا اور آخری مباحثہ ہوگا۔
رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ ٹرمپ، کلنٹن سے پیچھے ہیں، اور بدھ کا مباحثہ اُن کے لیے آخری موقع ثابت ہو سکتا ہے کہ وہ صدارتی دوڑ میں اپنی کارکردگی میں تبدیلی لا سکیں، جب کہ انتخاب کے دِن میں تین سے بھی کم ہفتے باقی ہیں۔
’ریئل کلیئر پالٹکس‘ کی جانب سے کرائے گئے تازہ ترین عوامی جائزے سے پتا چلتا ہے کہ کلنٹن ٹرمپ سے 6.4 فی صد پوائنٹ سے آگے ہیں۔ کانٹے کے مقابلے والی اہم ریاستوں میں بھی کلنٹن کو برتری حاصل ہے، حالانکہ، نیواڈا، نارتھ کیرولینا اور اوہائیو میں’ سی این این۔او آر سی‘ کی جانب سے کیے گئے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ کو درپیش حالیہ سیاسی مسائل کے باوجود وہاں انتخابی دوڑ قریب تر ہے۔
ٹرمپ: ’’یہ دھاندلی ہے‘‘
ٹرمپ اپنے حامیوں کو بتا رہے ہیں کہ اُن کا سامنا ’کلنٹن کی سیاسی مشین‘ اور ’متعصب نیوز میڈیا‘ سے ہے۔ مئین کے شہر، بنگور میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ انتخابات کے دِن تک اُنھیں سخت محنت کرنی ہوگی۔ بقول اُن کے، ’’لوگو، یہ دھاندلی پر مبنی نظام ہے۔ لیکن، ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے‘‘۔
ٹرمپ نے متعدد خواتین کی جانب سے ماضی میں دست درازی سے متعلق الزامات کی تردید کی ہے۔ نارتھ کیرولینا کے شہر گرونس بورو میں جمعے کے روز منعقد ہونے والی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے، ٹرمپ نے سخت لہجے میں سب الزامات کو مسترد کیا۔ بقول اُن کے ’’یہ جھوٹ ہے جسے ذرائع ابلاغ اور کلنٹن کی انتخابی مہم پیش کررہے ہیں ، تاکہ ملک پر اپنی گرفت میں زور پیدا کر سکیں۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ یہ سارے الزامات گھڑے گئے ہیں، اختراع ہے، 100 فی صد اور کُلی طور پر اورمکمل من گھڑت‘‘۔
متبادل کی کمی نہیں: کلنٹن
حالیہ دنوں کے دوران، کلنٹن مباحثے کی تیاری میں مشغول رہی ہیں۔ مباحثوں سے قبل اپنی حالیہ ریلیوں سے خطاب میں، اُنھوں نے اکثر اپنا دھیان اصل مسائل کی جانب مرتکز رکھا ہے، جس میں معیشت شامل ہے۔
ریاست واشنگٹن کی شہر، سیاٹل میں ایک ریلی سے خطاب کے دوران، اُنھوں نے کہا کہ ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں معیشت کو اس قابل بنانا ہوگا کہ سب کے لیے بہتر ثابت ہو، ناکہ محض وہ لوگ جو معاشرے کی اونچی سطح سے تعلق رکھتے ہیں، اور ہم ایسا کر سکتے ہیں‘‘۔
انتخابی مہم میں ہیلری کو اپنے شوہر سابق صدر بِل کلنٹن کے علاوہ صدر براک أوباما اور خاتون اول مشیل أوباما کی جانب سے کافی مدد مل رہی ہے۔ مشیل أوباما نے ٹرمپ کے نازیبا بیانات پر اُن پر نکتہ چینی کی، خاص طور پر ’ایکسیس ہالی ووڈ‘ کی سنہ 2005 کی وڈیو ٹیپ جو حالیہ دِنوں کے دوران سامنے آئی۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ ایک طاقتور فرد ہیں جو کھلے عام جنسی معاملات پر غیر مہذب رویے کا اظہار کرتے ہیں‘‘۔
ٹرمپ خواتین کے ووٹ کھو رہے ہیں
اس وڈیو کے نمودار ہونے اور کئی ایک خواتین کی جانب سے الزامات لگائے جانے کے بعد، ٹرمپ عام جائزہ رپورٹوں میں پیچھے چلے گئے ہیں، اور یہ تنازعہ اُنھیں نقصان پہنچا رہا ہے، جب کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اُنھیں خواتین کے ووٹوں کی سخت ضرورت ہے، جس اتحاد کو اُنھیں وسعت دینی ہوگی۔
ٹرمپ کی جانب سے حالیہ دِنوں میں اپنایا گیا نامناسب انداز خود ری پبلیکنز کے لیے بھی ناخوشگوار ثابت ہو رہا ہے، جو اس بات کے خواہاں ہیں کہ انتخاب کے اِن آخری دِنوں کے دوران ایسا امیدوار میدان میں ہونا چاہیئے جو پارٹی کے جھنڈے کو اونچا رکھے تاکہ کانگریس میں زیادہ سے زیادہ ری پبلیکن نشستیں جیتی جا سکیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے ایوانِ نمائندگان میں دوبارہ اکثریت کا حصول اتنا آسان نہیں، لیکن یہ سوال کہ سینیٹ پر کونسی پارٹی اکثریت حاصل کرتی ہے، ایک اہم معاملہ ہے۔