عراق (جیوڈیسک) امریکی وزارت دفاع پینٹاگان کے پریس سیکرٹری پیٹر کک نے صحافیوں کو بتایا کہ پیش قدمی سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ عراقی فورسز کو اب تک اہداف کے حصول میں توقع سے زیادہ کامیابی ملی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ کارروائی عراقی فورسز کی ’’منصوبہ بندی کے مطابق جاری ہے۔‘‘ زمینی فورسز کو امریکہ کی زیر قیادت قائم اتحاد کی فضائی مدد بھی حاصل ہے۔
موصل عراق کا دوسرا بڑا شہر ہے اور پیر کو عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی نے شہر کو داعش سے آزاد کروانے کے لیے باقاعدہ آپریشن کا آغاز کیا تھا۔
اس آپریشن میں 30 ہزار عراقی فوجی جب کہ کرد پیش مرگہ کے چار ہزار جنگجو حصہ لے رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق توقع سے زیادہ تیزی سے سکیورٹی فورسز نے موصل کی طرف پیش قدمی کی ہے اور کئی دیہات داعش کے جنگجوؤں سے خالی کروا لیے گئے۔
تاہم بعض علاقوں میں ’داعش‘ کے جنگجوؤں کی طرف سے سکیورٹی فورسز کو مزاحمت کا سامنا ہے۔
منصوبے کے مطابق موصل میں کارروائی کرنے والی فورسز کو امریکی اسپیشل فورسز کے 200 اہلکاروں کی مدد بھی حاصل ہے، جن میں سے کچھ اگلے محاذ پر لڑنے والوں کے پیچھے تعینات ہیں۔
امریکی دفاعی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان کے فوجیوں کا کردار مشاورت اور معاونت کا ہے اور کچھ فضائی مدد کو بلانے کا کام کر سکتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جوش ارنسٹ نے پیر کو کہا کہ یہ کارروائی ایک ’’اہم امتحان ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’داعش کو شہر سے بے دخل کرنا، ایک اہم اسٹرایٹیجک پیش رفت ہو گی۔‘‘
ادھر ایک بیان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے کہا ہے کہ جوں جوں جنگ آگے بڑھے گی موصل سے 10 لاکھ تک عراقی شہری شام اور ترقی کی جانب نقل مکانی کر سکتے ہیں۔