تحریر : شیخ خالد ذاہد آپ کا تعلق دنیا کے کسی بھی مذہب سے ہو یا نا بھی ہو، ایک نا ایک دن آپ کو اس دارِ فانی سے کوچ کرنا ہے۔ اپنی محنت مشقت اور تمام تعلقات چھوڑ چھاڑ کر جانا ہوگا۔ کتنے ہی ایسے کام ادھورے رہ جائینگے جو ہم سمجھتے تھے کہ ہمارے علاوہ کوئی سرانجام نہیں دے سکے گا۔ٍ اس بات بھی سے قطع نظر کہ آپ کتنے جاہ وجلال اور اعلی مقام رکھتے ہیں یا کتنے امیر کبیر ہیں یا پھر کتنے متقی پرہیز گار اور اللہ برگزیدہ بندے ہو۔ پس اس بات تو ساری دنیا کو اتفاق کرنا ہی پڑے گا کہ دنیا میں جس شے نے جنم لیا ہے سانس لی ہے، پیدا ہوئی ہے اس کو لوٹنا پڑے گا ایک دن مرنا پڑے گا اور اپنے خالقِ حقیقی کی طرف لوٹنا پڑیگا۔ پروین شاکر نے بہت خوبصورت شعر کہا “وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو میرے پاس آیا ۔ بس یہی بات اچھی ہے مرے ہرجائی کی”۔
تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جو زندگی میں ایسے مگن تھے یا اس طرح زندہ رہے کہ کبھی مرنا نہیں تھا اور آج ایسا ہے کہ جیسے وہ کبھی دنیا میں آئے ہی نہیں تھے۔ یہاں تک کے ہم سب گواہ ہیں بلکہ قسم کھائے ہوئے ہیں کہ تاریخ سے سبق نا سیکھا گیا اور نا ہی سیکھنا ہے بلکہ ہم سب نئی تاریخ رقم کرنے کی غرض سے اپنا وقت اپنے طور سے گزارہ اور آج بھی جو لوگ دنیا میں موجود ہیں تاریخ رقم کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔ تاریخ رقم کرنے کے شوق میں دنیا کی انسانیت کیلئے بدترین جگہ بناتے جا رہے ہیں۔ اگر امن ہے تو یہ خوف ہے کہ کب تک رہے گا اور جنگ ہے تو فکر لاحق ہے کہ کب کسی منطقی انجام کو پہنچے گی۔ کہنے والے کہتے ہیں کے اگر موت نا ہوتی تو زندگی کا مزا نہیں ہوتا اور سب سے بڑھ کر انسان اپنے خالق کا منکر ہوتا۔
Politics
ہمارے ملک کی سیاست کا جائزہ لیں یا دنیا کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں ہر طرف ایسے ہی لوگوں کی بھرمار نظر آئیگی جن کے اقدامات اور برتاؤ سے یہ لگتا ہے کہ رہتی دنیا تک کیلئے حیات اور برسرِاقتدار رہینگے، کچھ بھی کر لیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کم ازکم ہمارے ملک میں تو ایسا ہی ہے۔ پاکستان میں “انا” بہت پھلتی پھولتی ہے۔
ملکی سیاست ہو یا گھریلو معاملات یا دفتری امور ہر جگہ انا کا کردار بہت اہم نظر آتا ہے۔ درحقیقت یہ انا ہی تو ہے جو ہمیں اس واپسی کے سفر سے بھٹکا دیتی ہے اور دنیا جہان میں الجھائے رکھتی ہے۔ دنیا سے اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا۔ آپ پاکستان میں ہونے والی داخلی سیاسی صورتحال دیکھ لیں یا پھرامریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کا ڈرامہ دیکھ لیں، آپ انڈیا کے عزائم دیکھ لیں یا شام، فلسطین، کشمیر اور دیگر ان جیسے ملکوں کو دیکھ لیں۔ ہر جگہ انا نے اپنی دھاک بیٹھائی ہوئی ہے۔ یہ ممالک ہیں جہاں زندگی موت کے مشابہ ہے۔
Rhetoric
ایک طرف تو یہ سیاستدان ایک دوسرے کو ایسے ایسے القابات سے نوازتے ہیں کہ کبھی ایک دوسرے کا سامنا ہی نہیں کرنا مگر سیاسی مفادات جوکہ کافی حد تک ذاتی مفاد کی حیثیت اختیار کر چکے ہوتے ہیں کی خاطر گلے بھی مل لیتے ہیں اور ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی تناول فرما لیتے ہیں اور خوش گپیاں بھی کر لیتے ہیں۔ اس سارے عمل کی بدولت منافقت کی ایسی اعلی مثال قائم کرتے ہیں کہ دنیا حیران و پریشان رہ جاتی ہے۔ آپ کو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ذہن پر زور دینے کی ضرورت ہے ابھی انتخابات کے دوران ہونے والے جلسوں پر نظر ڈال لیجئے کس طرح ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی اور لٹکانے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ ابھی کچھ ہی وقت گزرا ہے کہ یہی لوگ ایسے محبت اور افہام و تفہیم کی مثال بن گئے۔ دراصل یہ لوگ بھی بھولے بیٹھے ہیں کے اس دنیا کو چھوڑنا ہے یہ سب عارضی ہے ۔
دنیا صرف دو لوگوں کو یاد رکھتی ہے ایک وہ جنہوں نے انسانیت کی خدمت کی ہو اور انسانیت کیلئے دنیا کو آرام دہ بنانے کی کوششیں کی ہوں یا پھر دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے انسانیت کی تذلیل کی مثالیں قائم کی ہوں اور دنیا انسانوں کیلئے تنگ کردی ہو۔ دنیا میں رہا کوئی نہیں نا انسانیت کی خدمت کرنے والے اور نا ہی انسانیت کی توہین کرنے والے۔ بس آج جب تذکرہ ہوتا ہے تو کسی کیلئے دعائیں ہوتی ہیں اور کسی کیلئے۔۔۔۔۔۔۔ اب فیصلہ ہم سب کو خود ہی کرنا ہے کہ دنیا دعاؤں میں یاد رکھے یاپھر۔۔۔۔۔۔کیونکہ قدرت کا قانون ہے اور رہنا تو ہم کو بھی نہیں ہے۔