بے بس لا چار کسانوں کو نیا لولی پاپ

Farmers

Farmers

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
کسان پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں دیہاتوں میں رہنے والے افراد کی تعداد کل آبادی کا ستر فیصد ہیں۔ نئی مردم شماری تو سبھی مفاد پرست عناصر بلکہ ہر حکمران نے اپنی مخصوص سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر نہیں کروائی اور نہ ہی آئندہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کروائیں گے اندازاً آبادی 21 کروڑ تک بڑھ چکی ہے اس طرح دیہات میں رہنے والے چودہ کروڑ ستر لاکھ بنتے ہیںجن میں سے بلاشبہ ایسے 21,20فیصد لازماً کاشتکار کسان ہیں جن کی زمین ایک ایکڑسے پانچ ایکڑ تک ہے۔

اس طرح سے تین کروڑ کاشتکار کسان بنتا ہے۔ جوسخت گرمیوں میں اپنا پسینہ بہاتا اور سردیوں کی ٹھٹرتی راتوں میں اپنی فصلوں کی نگہداشت کرتا اور انھیں پانی تک لگا تا ہے اور پھر ہمارے لیے گندم چاول چنا دالیں کپاس سبزیاں فروٹ مہیا کرتا ہے غرضیکہ ہماری زندگی کا انحصار ہی کسانوں کی محنت و مشقت پر ہے انھیں بلاشبہ محاوراتاً پاکستانیوں کا ان داتا کہا جاسکتا ہے ۔اب پنجاب حکومت نے 100ارب روپے کے غیر سودی قرضوں کے پیکج کا اعلان کیا ہے اس کی پبلسٹی پر ہی کروڑوں روپے کے اشتہارات اخبارات و دیگر آڈیو ویڈیو میڈیاز پر دیے جارہے ہیں۔تاکہ عوامی پاپولیریٹی بڑھے حالانکہ سارا سرمایہ بیرونی ممالک ،ورلڈبنک اور آئی ایم ایف سے ہی بطور قرض بھاری سود پر لیا جاتاہے اس طرح ہر پیدا ہونے والا پاکستانی بچہ1لاکھ تیس ہزار کا مقروض ہو چکا ہے ۔یہ سارے آئندہ2018کے عام انتخابات کے جیتنے کے حربے اور ترلے ہیں فی ایکڑ 65ہزار قرضہ ملے گا س طرح سے سو ارب روپے (اگر واقعی دیے گئے)تو زیادہ سے زیادہ چار لاکھ افراد کو مل سکیں گے باقی2کروڑ چھیانوے لاکھ کسان اس سے محروم رہیں گے۔

یہ صرف کل کسانوں کا 1.35فیصد ہوا یعنی سو میں سے تقریباً ایک آدمی کو قرضہ مل سکے گا۔یہ تو تب ہو گا اگر اسے پورے پاکستان پر نافذ کیا جائے اگر صرف اعلان کے مطابق پنجاب ہی میں قرضے دیے گئے تودو اڑھائی فیصد سے زائد افراد مستفیض نہیں ہو سکیں گے۔اور یہ قرضے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف بھی نہ ہیں جبکہ اس سے قبل 340ارب کے کسان پیکج کاااعلان دلپذیر بھی فرمایا گیا تھا جس میںسے وزراء مشیروں ممبران اسمبلی اور ان کے عزیز و اقارب و دوست احباب و تعلق دار کو چند ارب تقسیم ہوئے۔باقی رقوم چونکہ اورنج لائن کا خرچہ پوار ہوتا نظر نہ آتا تھا اس لیے وہیں لاہور میں کسانوں کے پیکج کی رقوم دفن کردی گئیں جو سکیمیں بھاری قرضوں اور بیرونی امدادوں سے شروع کی گئی ہیں اگر آئندہ انتخابات تک مکمل نہ ہو سکیں تو بڑے شہروں میں حکومتی امیدواروں کو شاید پولنگ ایجنٹ بھی نہ مل سکے ایسی سکیموں میں کک بیکس بہت ہیں۔

اربوں کے گھپلے بیورو کریسی کر رہی ہے اور نیچے سے اوپر تک کرپشنی سرکل پورے تزک و احتشام ” اوراحسن “طور پر چل رہا ہے ایسی سکیموں میں اتنا بھرپور مال و متال بن رہا ہے کہ الامان و الحفیظ ۔پکڑی گئی پانامہ لیکس کا کل سرمایہ بھی شاید ان سکیموںکی کل کمائی کا مقابلہ نہ کرسکے گا۔تین سو چالیس ارب والے پیکج میں سے صرف پینتالیس ارب کے قرضوں کی ہی بندر بانٹ ہو سکی تھی باقی 295ارب لاہوری سکیموں میں ہی دفن ہو گئے جن کا بیشتر سرمایہ الم غلم ہو چکا ہے۔کبھی پیلی ٹیکسی سکیم چلی تھی آج تک بینکرز رورہے ہیں کہ ہزار میں سے پانچ افراد نے بھی قرضے واپس نہ کیے گاڑیاں کبھی کی کھٹکارا ہو کر کباڑیوں کے پاس پہنچ چکیں اب سو ارب کے نئے لولی پاپ کا بھی یہی حشر ہو گا کسان پہلے ہی آڑھتی حضرات کے قرضے کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔

 Farmer Package

Farmer Package

اب یہ حکومتی سکیم بھی اپنوں کو پالنے پوسنے اور حکومتی مشینری کے ذریعے کسانوں کو دبانے کے لیے ہے اپنے چہیتے با اثر لوگوں کورقوم کی بندر بانٹ ہو گی جس کا شاید کوئی حساب کتاب ہی نہ رکھا جا سکے جنہوں نے ایسا کرنا ہے وہ بھی تو حصہ دار ہیںیعنی میاں بیوری راضی تو کیا کرے گا قاضی والی بات صادر آتی ہے۔ کھربوں کے بنک قرضے معاف ہوتے رہے اب بھی دو تین فیصد رقوم شاید کسانوں تک پہنچ سکیں باقی پھر لاہور کو پیرس بنا چھوڑنے کی نظر ہوںگی۔مگر وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے مغل بادشاہوں کے دریائوں کے کناروں پر موجود قلعے آخر کیا ہوئے؟کیا وہاں انسان رہتے ہیں یا بھوت بنگلہ بنے ہوئے ہیں۔

اسی طرح سے مٹی سیمنٹ لوہا پتھروں سے بنی ہوئی سبھی سکیمیں چند سالوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر مکمل فیل ہو جائیں گی کسانو ں کو تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی پیدا کردہ فصلوںکا صحیح ریٹ لگے۔اور تمام فصلیں سرکاری سینٹر زنقد قیمت پر خریدیں وگرنہ کسان بھوکوں مرتے رہیں گے۔ آڑھتی جو دوسو گنا سود پر بیج کھاد دیتے ہیں وہ سسٹم ختم ہوسکے کھاد بیج اور فصلوں کی دوائی ٹریکٹر و مشینری آسان قیمتوں پر دستیاب ہوں دیہاتوں تک بھی پکی سڑکیں تعمیر ہوں پینے کا صاف پانی مہیا ہو چالیس فیصد دیہاتوں میں جانور اور انسان ایک ہی تالاب سے پانی پیتے ہیں دو ر دراز تک ہسپتال ناپید ہیں کسانوں کے ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی کے کم ریٹ کئی بار مقرر ہوئے سب زبانی جمع خرچ ہواجو بجلی کے افسران کو رشوت پیش کریں وہی کامیاب ہیں ۔کسانوں کی زمینیں نوے فیصد بنکوں کے پاس گروی پڑی ہیں۔

معصوم بچے اور جوان بچیاں وڈیروں کی غلامی کرتی ہیں سبھی فصلوں کو حکومتوں کے سینٹر پر خریدا جانا احسن قدم ہو گا محکمہ ذراعت کو ایکٹو کیا جائے کہ وہ انھیں بیج کھاد اور بجلی کی فراہمی یقینی بنائے بھارتی آبی دہشت گردی سے ویسے ہی پاکستان ایتھو پیا جیسا ریگستان بنتا نظر آرہا ہے ان کے مسائل حل کریں پانی کی فراہمی یقینی بنائیں سرکاری قرضوں کے نیچے کسانوں کو مت دبائیں۔

ویسے بھی سبھی کو پتا ہے کہ قرضہ صرف حکومتی منظور نظروں اور بیورو کریسی کے ٹائوٹوں کو ملے گا۔جب پورے دیہات میں دو تین افراد کو ہی ملنا ہے تو پٹواریوں تحصیل داروںکی گھن چکریاں کہ تیس فیصد ہمارا ہو گا تو قرضہ لے لو۔عالمی بنک کی رپورٹ کہ ساٹھ فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے اور ہماری ہی وزارت منصوبہ بندی کے مطابق 40فیصد آبادی کثیر الجہتی غربت کا شکا رہے جو کہ بلوچستان کے بعض علاقوں میں نوے فیصد تک پہنچی ہوئی ہے خدا سے دعا ہے کہ حکمران ہوش کے ناخن لیں قرضوں کے نیچے دبانے کی بجائے فلاح و بہبود پر مبنی سکیمیں بنائیں۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری