کراچی (جیوڈیسک) پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سمیت سندھ بھر میں شراب کی دکانوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس سجاد علی شاہ نے ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ صوبے میں موجود تمام مےخانوں کےاجازت ناموں کا ازسرنو جائزہ لیں اور ان میں سے جو بھی حدود آرڈینینس 1979 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہیں انھیں دو روز کے اندر بند کیا جائے۔
اس بارے میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ مصطفٰی مہیسر نے بتایا کہ پاکستان میں مےخانوں کے لائسنس حدود آرڈینینس کی دفعہ 17 کے تحت جاری کیے جاتے ہیں جس میں یہ صاف لکھا ہوا ہے کہ یہ اجازت نامے صرف غیرمسلموں کو ان کے مذہبی تہوارکے موقع پر شراب فراہم کرنے کے لیے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ عدالت نے براہِ راست کوئی شراب خانہ بند کرنے کے لیے نہیں کہا مگر ڈی جی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسے تمام مے خانوں کے اجازت نامے ’ری کال‘ کر لیں جو اس قانون کے خلاف جاری کیے گئے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ عدالت نے اس دلیل کو رد کر دیا کہ کچھ شراب خانے تو 1878 سے قائم ہیں کیونکہ عدالت کا کہنا تھا کہ وہ سرکلر بمبئی سے جاری ہوا تھا اور 1979 کے حدود آرڈینینس کے بعد اس کی حیثیت منسوخ ہوگئی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ عدالت کے احکام کے تحت تو سب ہی شراب خانے بند ہوجائیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ ابھی ڈی جی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے پاس ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز سندھ ہائی کورٹ میں صوبے کے تین علاقوں میں شراب کی دکانیں کھلنے کے خلاف دائر ہونے والی 3 الگ الگ درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ شراب کی دکان کا لائسنس حدود آرڈینینس کی دفعہ 17 کے تحت جاری کیا جاتا ہے۔
تاہم جب عدالت نے اس کا مطالعہ کیا تو اس میں واضح طور پر لکھا تھا کہ شراب صرف غیرمسلموں کو ان کے مذہبی تہواروں کے مواقع پر فراہم کی جاسکتی ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر ایسا ہے تو یہ دکانیں سارا سال کیوں کھلی رہتی ہیں؟۔
عدالت میں ڈی جی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن شعیب احمد صدیقی کی جانب سے مےخانوں کے لائسنس کے اعداد و شمار جمع کروائے گئے جس کے مطابق صرف کراچی میں 120 مے خانے موجود ہیں جس میں صرف ضلع جنوبی میں 24 مے خانے ہیں۔
اس موقعے پر عدالت نے کہا کہ ڈٰی جی کی رپورٹ کے مطابق ایک غیر مسلم شہری اوسطاً 750 لیٹر شراب ماہانہ پی رہے ہیں۔ اس موقع پر عدالت نے ڈی جی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو حکم دیا کہ وہ عیسائیوں کے مذہبی رہنما اور ہندؤوں کے پنڈت کو بلاکر پوچھیں کہ کیا گیتا اور بائبل سارا سال شراب کی اجازت دیتی ہے۔
ادھر اس کیس میں ہندہ اور مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی مقدمے میں فریق بننے کی درخواست دائر کی ہے۔ ڈاکٹر آتم پرکاش وفاقِ ہائے ایوانِ صنعت و تجارت کی اقلیتی کمیٹی کے سربراہ ہیں اور ہندو ہیلپ لائن نامی تنظیم کے صدر بھی ہیں۔
انھوں نے کرسچین ہیلپ لائن کے سلیم مائیکل کے ساتھ مشترکہ طور پر درخواست کی ہے کہ مسیحی اور ہندو مذہب بھی نشہ کرنے اور شراب کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے اقلیتوں کے نام پر شراب کی فراہمی بند کی جائے۔
انھوں نے کہا کہ اگر کچھ مسلمان شراب پینا چاہتے ہیں تو پئیں مگر ہمیں بدنام نہ کریں کیونکہ جب ملازمت کی بات آتی ہے تو اقلیتوں کا کوٹہ 5 فیصد مخصوص ہوتا ہے مگر شراب 100 ہمارے نام پر ملتی ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ بااثر افراد اور سیاستدانوں نے اپنے غیر مسلم ملازمین کے ناموں پر شراب کے لائسنس حاصل کررکھے ہیں۔
عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ ملک میں درآمد کی جانے والی شراب کا بھی ریکارڈ منگوایا جائے تاکہ اقلیتی برادری کو بدنام نہ کیا جاسکے۔ درخواست میں ان کا کہنا ہے کہ عدالت ملک میں چلنے والی تمام شوگر ملوں کا ریکارڈ بھی حاصل کرے جو ملک میں چلنے والے شراب کے کارخانوں کو خام مال فراہم کرتی ہیں۔
اس مقدمے بارے میں جب سندھ کے صوبائی وزیر مکیش چاؤلہ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے یہ کہہ کر بات کرنے سے معذرت کر لی کے ابھی یہ کیس عدالت میں ہے اس لیے وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔
جبکہ ڈی جی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود اس معاملے پر اپنا مؤقف نہیں دیا۔مقدمے کی آئندہ سماعت 26 اکتوبر ہوگی۔