تحریر : سید توقیر زیدی عجیب صورت حال ہے جس کسی نے بانی ایم کیو ایم کا ساتھ چھوڑا ہے وہ دوسروں پر الزام لگا رہا ہے کہ ان کے لندن سے رابطے ہیں، جن لوگوں کے بھی بانی کے ساتھ فاصلے پیدا ہوئے، ان میں گورنر سندھ عشرت العباد بھی شامل ہیں، جن سے ایم کیو ایم نے لاتعلقی کا اعلان کر دیا تھا۔ مصطفی کمال تو سال رواں کی پہلی سہ ماہی میں بیرون ملک سے وارد کراچی ہوئے اور الطاف حسین پر ”را” کا ایجنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ مزید کئی سنگین الزامات بھی لگا دئیے۔ یہ بھی کہا کہ انہوں نے پڑھے لکھے لوگوں کو قاتل بنا دیا۔ مصطفی کمال یہ کہتے ہوئے رو پڑے تھے۔
ایم کیو ایم سے باغی ہونے کی اپنی پہلی پریس کانفرنس کے بعد سے آج تک مصطفی کمال الطاف حسین پر اپنے الزامات دہرا رہے تھے لیکن ان لوگوں کے سوا، جو ایم کیو ایم چھوڑ کر ان کے ساتھ آملے، ہر کوئی انہیں اسی نظر سے دیکھ رہا تھا جس سے ایم کیو ایم کے اندر بغاوت کرنے والوں کو دیکھا جاتا ہے۔ ان پر یہ الزام بھی لگایا جا رہا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی دی ہوئی لائن پر چل رہے ہیں، تاہم انہوں نے خود اس کی ہمیشہ تردید کی، یہاں تک کہ 22 اگست کی تقریر ہوگئی تو بہت سے دوسرے لوگ بھی اسی طرح سوچنے پر مجبور ہوگئے جس طرح مصطفی کمال نے سوچا تھا، لیکن ان کا ردعمل ذرا مختلف طریقے سے سامنے آیا۔ انہوں نے پہلے تو تقریر سے لاتعلقی ظاہر کی اور پھر آہستہ آہستہ ایم کیو ایم پاکستان قائم کر لی۔ جس کی قیادت اب ڈاکٹر فاروق ستار کر رہے ہیں جب تک وہ الطاف حسین کے نظم میں تھے وہ کبھی تو رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنویئنر رہے اور کبھی اس عہدے سے بھی ہٹا دئیے گئے لیکن اب ایم کیو ایم پاکستان میں ان کی حیثیت سربراہ کی ہے، جو لوگ اب تک لندن کے ساتھ وابستہ ہیں، انہوں نے بھی ایک نئی رابطہ کمیٹی قائم کرلی ہے، یہ لوگ تو اعلانیہ لندن کے ساتھ وابستہ ہیں۔
البتہ ڈاکٹر فاروق ستار پر اب تک یہ الزام لگ رہا ہے کہ انہوں نے وقتی طور پر علیحدگی اختیار کی ہے اور یہ حکمت عملی کا حصہ ہے جونہی ان پر دباؤ کم ہوگا وہ پھر الطاف حسین سے جا ملیں گے۔ مصطفی کمال پر آج ہی سندھ کے گورنر نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے بانی ایم کیو ایم سے رابطے ہیں جبکہ مصطفی کمال یہی الزام گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد پر لگاتے ہیں۔
Ishrat Ul Ebad
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈاکٹر عشرت العباد گورنر کے عہدے سے الگ ہو رہے ہیں یا انہیں الگ کیا جا رہا ہے یا وہ سیاست میں عملی کردار ادا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، کیونکہ جب سے وہ گورنر بنے ہیں، انہوں نے کبھی کھل کر اس طرح اظہار خیال نہیں کیا۔ اب اگر انہوں نے اس کی ضرورت محسوس کی ہے تو اس کا ضرور کوئی نہ کوئی پس منظر ہوگا، انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ عزیز آباد سے جو اسلحہ برآمد ہوا ہے، وہ ٹارگٹ کلنگ کے لئے نہیں بلکہ فوج اور رینجرز سے لڑنے کے لئے ذخیرہ کیا گیا تھا، اب یہ معلوم کرنا پڑے گا کہ یہ ذخیرہ کن لوگوں نے کیا تھا؟ اور یہ کون لوگ تھے جو فوج کے ساتھ لڑنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ڈاکٹر عشرت العباد گورنر بننے سے پہلے ایم کیو ایم کی سیاست میں متحرک تھے اور ان پر بعض منفی سرگرمیوں کے الزامات بھی تھے، جب انہیں گورنر بنایا گیا تو اس حوالے سے ان پر بعض الزامات بھی لگے لیکن گورنر بنانے والوں نے کہا کہ ان پر جو الزامات لگائے گئے وہ درست نہیں تھے، تاہم گورنر کے عہدے پر رہتے ہوئے ایم کیو ایم کو ان سے شکایات بھی پیدا ہوئیں۔
اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ آہستہ آہستہ وہ ایم کیو ایم کی توقعات سے دور ہوتے چلے گئے اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب ایم کیو ایم نے ان سے لاتعلقی اختیار کرلی اور یہ تک کہہ دیا کہ انہیں گورنر کے عہدے سے ہٹا دیا جائے لیکن جنہوں نے انہیں گورنر بنایا تھا وہ ان کو ہٹانے کے لئے آمادہ نہ ہوئے اور یوں وہ ریکارڈ مدت کے لئے گورنر بن گئے اور اب تک اس عہدے پر ہیں۔ اب مصطفی کمال اور عشرت العباد کے درمیان جو نئی لفظی جنگ شروع ہوئی ہے اس میں تو اول الذکر یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ وہ ”رشوت العباد” ہیں اور انہیں گرفتار کرکے نام ای سی ایل میں ڈالا جائے، انہوں نے ان پر الطاف حسین سے رابطوں کا الزام بھی لگایا جس کا جواب عشرت العباد نے یہ کہہ کر دیا ہے کہ رابطے تو خود مصطفی کمال کے ہیں، الزام تراشی کی یہ جنگ کیا رخ اختیار کرتی ہے، چند روز تک انتظار کرنا ہوگا۔ عشرت العباد نے حکیم سعید کیس سمیت کئی مقدمات کو یاد کیا ہے۔
سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ یہ سانحہ جتنا بڑا تھا اس کے مجرموں کو سزا نہ ملنا بھی اس سے کم سانحہ نہیں ہے۔ مختلف اوقات میں اس کی مختلف توجیہات سامنے آتی رہیں، اسے بھتہ نہ دینے کا ظالمانہ انتقام بھی قرار دیا جاتا رہا، لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کی ٹھوس تحقیقات آج تک منظر عام پر نہیں آسکیں تو کیا ڈاکٹر عشرت العباد اب نئے سرے سے اس سانحے کی تحقیقات کا ارادہ رکھتے ہیں اور کیا انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے اس سلسلے میں کوئی بات چیت کرلی ہے یا پھر اپنے طور پر ہی اس کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ گورنر ہیں لیکن صوبے کے چیف ایگزیکٹو تو وزیراعلیٰ ہی ہیں، ان کی منظوری اور رضامندی کے بغیر تو بلدیہ ٹاؤن سانحے پر کوئی پیشرفت ممکن نہیں ہے۔
Mustafa Kemal
عزیز آباد سے اسلحہ برآمد ہونے کے بعد ایک اعلیٰ پولیس افسر نے کہا تھا کہ جو اسلحہ برآمد ہوا ہے وہ اس اسلحے کا صرف دس فیصد ہے جو اب تک مختلف علاقوں میں چھپایا گیا ہے، اس اسلحے کی برآمدگی پر پولیس کے کردار کو رینجرز نے بھی سراہا تھا۔ تو کیا جو 90 فیصد اسلحہ اب تک برآمد نہیں کیا گیا اب اس کی برآمدگی کا بھی کوئی منصوبہ بنالیا گیا ہے؟ اور یہ معلوم کرلیا گیا ہے کہ یہ اسلحہ کہاں کہاں چھپا ہوا ہے؟ کیونکہ اگر پولیس کے اعلیٰ افسر کو یہ معلوم تھا کہ برآمد ہونے والا اسلحہ چھپے ہوئے اسلحہ کا صرف 10 فیصد ہے تو پھر یہ معلومات بھی پولیس کے پاس ہونی چاہئیں کہ باقی اسلحہ کہاں چھپا ہوا ہے اور اس کی برآمدگی کے لئے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
لگتا یہ ہے کہ چند روز کے اندر اندر کوئی بڑے اقدامات سامنے آنے والے ہیں، ڈاکٹر عشرت العباد نے اپنی آج کی گفتگو میں کراچی کے سابق ناظم نعمت اللہ خان کی کارکردگی کو بھی سراہا، ایک زمانے میں جنرل پرویز مشرف نے بھی جب وہ صدر تھے نعمت اللہ خان کی کارکردگی کی تعریف کی تھی لیکن جب مصطفی کمال ناظم بن گئے تو نعمت اللہ خان کے تمام کارنامے پورے اہتمام کے ساتھ پس منظر میں دھکیل دئیے گئے تھے۔ چلئے باہمی لڑائیوں کی وجہ سے اب اتنا تو ہوا کہ تاخیر سے ہی سہی نعمت اللہ خان کی بھی تعریف ہونے لگی۔ وقت وقت کی بات ہے، عام اور معمول کے مطابق حالات میں یہ ممکن نہ تھا اب ایم کیو ایم کے پرانے ساتھیوں کے اختلاف کے باعث ہی یہ ممکن ہو سکا ہے۔