کراچی (جیوڈیسک) گذشتہ ہفتے جو خبر پاکستان الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی خبروں میں شہ سرخی بنی رہی وہ تھی اسکول کی تین طالبات کی گمشدگی۔ بظاہر تو لگا کہ یہ اغوا کا معاملہ ہے۔ تاہم، چند روز بعد، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کاروائیوں کے بعد، تینں لڑکیاں منظر پر لائی گئیں۔
اس دوران قانون نافذ کرنےوالے ادارے کے حکام نے میڈیا گفتگو میں انکشاف کیا کہ “تینوں طالبات سخت ذہنی دباؤ کا شکار تھیں، اور گھریلو حالات کی بدمزگی کے سبب ان تینوں نے گھر چھوڑ کر جانے کی منصوبہ بندی کی‘‘۔
سینٹرل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر جمیل احمد کا کہنا ہے کہ “تینوں طالبات اغوا نہیں ہوئیں۔ والدین اور گھریلو ذہنی دباؤ کے باعث گھر سے فرار ہوئیں۔ پولیس حکام کے مطابق “لڑکیوں نے پولیس کو دئے گئے بیان میں بتایا کہ ان کے والدین کا ان پر عدم اعتماد، گھریلو ناچاقیاں ان پر ذہنی دباؤ کے باعث اور تینوں لڑکیاں گھر سے فرار کا سوچا”۔
رابطہ کرنے پر لڑکیوں کے والدین نے اس معاملے پر کسی قسم کی گفتگو یا تبصرہ کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ یہ ایک خبر ملک میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی ذہنی پیچیدگیوں اور کیفیت کی عکاسی کر رہی ہے کہ حساس طبعیت رکھنے والے نوجوان موجودہ دور میں کس ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
گھریلو ناچاقیاں، معاشرتی نا ہمواریاں، ذہنی انتشار، مایوسیاں، یہ وہ تمام عناصر ہیں جو پاکستان میں نوجوانوں کو ذہنی الجھنوں کا شکار بنا رہے ہیں۔ ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ ملک میں دماغی امراض سے متاثرہ افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جس میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔
کراچی کے آغا خان یونیورسٹی اسپتال کی ماہر دماغی امراض عائشہ میاں کہتی ہیں کہ “ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں عام ذہنی بیماریوں میں مبتلا افراد کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ ہے جس میں ڈیڑھ سے ساڑھے تین کروڑ بالغ افراد مختلف قسم کی ذہنی بیماریوں سے متاثر ہیں جو آبادی کا تقریباً 10 سے 20 فیصد ہے۔ ان کے بقول “تقریباً دو کروڑ بچوں اور کم عمر افراد جو کل آبادی کے 10 فیصد بنتے ہیں کو ماہر نفسیات کی ضرورت درپیش ہے”۔
ڈاکٹر عائشہ نے وی او اے سے گفتگو مِں بتایا کہ “نوجوانوں او ر بچوں میں گھبراہٹ اور ڈپریشن ایک عام مسئلہ ہے سب سے اہم بات کم عمر افراد کے اردگرد کا ماحول اور افراد کی جانب سے ایک ذہنی دباؤ بچوں پر ہوتا ہے کہ اکثر والدین تعلیم پر زور دیتے ہیں اسکی وجہ سے وہ نوجوان ذہنی سخت دباو میں آ جاتا ہے‘‘۔
نوجوان ذہنی الجھنوں کا شکار علامات کیا؟ اس حوالے سے ڈاکٹر عائشہ نے بتایا کہ “نوجوان اکثر ذہنی الجھنوں اور گھبراہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں بعد ازاں ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ رویوں میں ایک بڑی تبدیلی ایسی علامات کو ظاہر کرتی ہے۔ ایسے کیسز میں اکثر بچے ضدی ہوجاتے ہیں اور دیگر منفی رجحان کی جانب چلے جاتے ہیں یہ علامات ان کی ذہنی کیفیات کو ظاہر کرتی ہیں”۔
ان کے مطابق “رویوں میں تبدیلی، ضدی چڑچڑاپن، عدم توجہی کا شکار والدین کا بچوں کی مسائل سے عدم آگہی بچوں نوجوانوں کو خودسر اور باغی بنا رہے ہیں”۔
‘تم ایک اسمارٹ شخص نہیں’ ماہر نفسیات کے بقول ’’تم ایک اسمارٹ شخص نہیں’‘۔ یہ وہ جملہ ہے جو نوجوانوں اور چھوٹی عمر کے افراد میں شدید مایوسی پیدا کر دیتا ہے۔ نوجوانوں میں ایک مکمل شخص نہ ہونے کا ایک رجحان ان میں مایوسی کو بڑھا رہا ہے، جس کی ایک وجہ معاشرے کے اردگرد کا ماحول ہے جہاں نوجوان اردگرد کے ماحول سے اثرات کو مایوسی کی صورت میں ذہن پر سوار کرلیتے ہیں۔ بقول اُن کے،’’ان میں ایسی سطح پر نوجوان خوداعتمادی اور شخصیت کو سنوارنے سے ہٹ کر مایوسی کی طرف مائل ہوجاتا ہے”۔
آج کے چھوٹے بچوں کی بڑی سوچ؟ ڈاکٹر عائشہ کے مطابق “پاکستان میں سوشل میڈیا کا کلچر اتنا عام ہوگیا ہے اگر الیکٹرانک میڈیا کو دیکھیں تو جو 100 سے زائد ٹی وی چینلز کیا دکھا رہے ہیں؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔
ان کے مطابق، ہمارا دھیان اس جانب ہونا چاہئے کہ ہم بچوں کی کس طرح تربیت کریں، کیا تبدیلی لائیں؛ وہ ایسے حالات سے سیکھیں بھی اور ان کا منفی اثر نا لیں۔ ڈاکٹر عائشہ کے مطابق اکثر والدین اب بچوں کو باہر کھیلنے سے منع کرتے ہیں، کیونکہ انھیں ماحول محفوظ نہیں لگتا‘‘۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ میں سے ایک فرد ذہنی پیچیدگی کا شکار ہے۔ افسوسناک امر ہے کہ ملک میں ماہر نفسیات کی کمی ہے۔ کوئی اعداد و شمار مرتب نہیں۔
ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ ذہنی بیماریوں کے مریض سماجی تعصب کا شکار ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ذہنی بیماریوں میں مبتلا افراد پر تشدد ہوتا ہے۔ وہ دیگر لوگوں سے مختلف نظر آتے ہیں۔ کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ یا وہ معاشرے کے کارآمد افراد نہیں بن سکتے۔ جب کہ اس سوچ کو دقیانوسی قرار دیا جا چکا ہے۔