تحریر : عارف اے نجمی قانون کے محافظ ہی قانون توڑنے کے مرتکب ہوتے ہیں اور پولیس اہلکار خصوصاً ٹریفک پولیس سے وابستہ اہلکار خلاف ورزیوں کرنے والوں کی چشم پوشی کرتے ہیں، ٹرانسپورٹرز ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے عام لوگوں کی زندگیوں سے ک?یلتے ہیں یہ زیادہ سواریوں کے لالچ میں اس حد تک اوور لوڈنگ کرتے ہیں کہ گاڑیوں کی چھتوں پر ب?ی مسافر ب?یڑ بکریوں کی طرح ٹ?ونسے ہوتے ہیں اگرچہ ان مفادات پر ٹریفک پولیس کے اہلکار ب?ی موجود ہوتے ہیں لیکن وہ ان سب ٹریفک خلاف ورزیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتے کیونکہ وہ ان سے چائے پانی لیتے ہیں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
اگر کوئی مسافر ان سے اوور لوڈنگ اور اوور سپیڈ کی شکایت کرے تو گاڑی کا عملہ نہایت بدتمیزی سے پیش آتا ہے اور کہتا ہے کہ اپنے لئے سپشل گاڑی کروا لینی ت?ی اور دیگر طرح طرح کے جملے سننے کو ملتے ہیں یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ سفر کرنا ہے تو چپ کر کے کرو ورنہ گاڑی سے اتاڑنے کی دھمکی دے کر چپ کرادیا دیا جاتا ہے۔
80 فصید ڈرائیورز حضرات اور دیگر گاڑی کا عملہ ان پڑھ اور نشہ جیسی لت میں مبتلا ہوتا ہے افیون، چرس اور شراب میں ٹن ہو کر گاڑیاں چلاتے ہیں بڑی گاڑیوں میں غیر اخلاقی فلمیں اور گانے اونچی آواز میں چل رہے ہوتے رہتے اور ڈرائیورز کی نظریں فلم اور گانوں پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے آئے روز ٹریفک حادثات سے لاتعداد انسانی جانیں تسلسل کے ساتھ لقمہ اجل بن رہی ہیں۔
Accident
کل کی ہی بات ہے کہ رحیم یار خان میں ایکسیڈنٹ سے 29 افراد لقمہ اجل بنے جب ایسے ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں تو ہمارے قانون بنانے والے ادارے حرکت میں آتے ہیں اور طرح طرح کی بیان بازی کرتے ہیں. اس سارے واقعے میں پولیس ٹریفک کے اہلکار ملوث ہوتے ہیں کیونکہ وہ کسی کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر روکتے ہیں تو جیب گرم کرنے پر چلتا کرتے ہیں اس طرح کیسے کنٹرول ہو گا یہ سب.؟۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک ب?ر میں ڈرائیوروں کی بڑی تعداد بنا لائسنس گاڑیاں چلا رہی ہے یہ لوگ چونکہ تربیت یافتہ نہیں ہوتے اس لئے بہت سے حادثات کی وجہ بنتے ہیں،جب تک ایسے افراد اور اس میں سارے ک?یل میں ملوث پولیس اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دینے کی روش عام نہیں ہو گی اس وقت تک ٹریفک حادثات میں کمی واقع نہیں ہو سکتی۔