تحریر : سید انور محمود حضرت علی کا فرمان ہے کہ ‘‘خوشامد اور تعریف کی محبت شیطان کے دو بڑے داؤ ہیں اور زبان سے بڑھکر کوئی چیز بھی زیادہ دیر قید رکھے جانے کی حقدار نہیں’’۔ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں جس چیز نے سب سے زیادہ ترقی کی ہے وہ ہے ‘‘خوشامد’’۔ خوشامد پسند یا تو حقیقت سے ناواقف ہوتا یا پھر حقیقت معلوم ہونے کے باوجود وہ اپنی خوشامد کو پسند کرتا ہے۔ خوشامدی شخص کبھی تنقید نہیں کرتا اور اس کی پالیسی جھوٹ پر مبنی باتوں کو بیان کرنا ہوتا ہے اور یہ بیان وہی ہوتا جواس کا بڑا اس سے سننا چاہتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ خوشامد پسند کےلیے ‘‘خوشامد’’ ایک نشہ ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ خوشامدی افراد شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ خوشامد نے ہمارئے سماجی اور سیاسی معاشرہ کوانتہائی پستی میں پہنچا دیا ہے۔آپ جس محکمے میں چاہیں چلے جائیں وہاں اکثر اہم پوزیشنوں پر آپکو نااہل لوگ ملینگے جو صرف اپنے بڑوں کی خوشامد کرنا جانتے ہیں۔
آیئے برطانوی ہندوستان کی ایک ریاست حیدرآباد دکن چلتے ہیں اور وہاں دیکھتے ہیں کہ اس زمانے میں خوشامد کیسے ہوتی تھی۔آزادی سے پہلے حیدرآباد دکن کےکسی حکمران نواب نے انگریز سرکار کے کسی حکم کے بعد ریڈیو پر اعلان کروایا کہ کل شام پانچ بجے نواب صاحب ریڈیو پرقوم سے خطاب فرمایں گے، اس دن کےلیے درباریوں کو بتادیا گیا کہ نواب صاحب دربار نہیں لگایں گئے۔ اگلے روز شام چار بجے انگریز سرکار کے ایک نمائندے نے نواب صاحب سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ واسرائے ہند چاہتے ہیں کہ آپ آج ریڈیو پرقوم سے خطاب نہ فرمایں۔ انگریز سرکار کا حکم نہ ماننا نواب صاحب کے بس کی بات نہیں تھی لہذا ریڈیو پرفوراً اعلان کیا گیا کہ نواب صاحب آج قوم سے خطاب نہیں کرینگے۔
اگلے دن جب دربار لگا تو دربار شروع ہوتے ہی ایک خوشامدی درباری کھڑا ہوا اور بولا ‘‘قبلہ نواب صاحب کل آپکےریڈیو پرخطاب سے پہلے بندہ اپنے پورئے اہل خانہ کے ساتھ ریڈیو کے سامنے دو زانو ہوکر بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر میں جب آپکا خطاب شروع ہوا تو بندہ آپکے ایک ایک جملے پر عش عش کراٹھا۔ قبلہ نواب صاحب کل جس طرح آپنے اپنی قوم کی نمائندگی کی ہے،تاریخ کے پنوں پر آپکی یہ تقریر سنہری حرفوں سے لکھی جائے گی’’۔ برابر میں بیٹھے ہوئے درباری نے آہستہ سے کہا خاموش ہوجاو کل نواب صاحب نے خطاب نہیں فرمایا، یہ سنتے ہی خوشامدی بولا قبلہ نواب صاحب میں جانتا ہوں کل آپنے خطاب نہیں فرمایا لیکن اگر آپ خطاب فرماتے تو ایسا ہی ہوتا جیسا میں نے عرض کیا ہے کیونکہ ہم سب آپکی قابلیت سے واقف ہیں۔ اگر یہ واقعہ آج کے دور میں پیش آتا اورنواب صاحب اپنے اس درباری کا نام پوچھتے تو شاید وہ بتاتا کہ خادم کو صالح ظافر کہتے ہیں۔
Qudrat Ullah Shahab
سابق بیورو کریٹ اور شہاب نامہ کے خالق قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ‘‘خوشامدیوں میں گھرا ہوا انسان شیرے کے قوام میں پھنسی ہوئی مکھی کی طرح بےبس اور معذور ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ اس کے اپنے حواس معطل ہو جاتے ہیں اور وہ وہی کچھ دیکھتا، سنتا، بولتا، سونگھتااور محسوس کرتا ہے جو چاپلوسی ٹٹو چاہتے ہیں۔ خوشامد کروانے والا اس موقع پر ہوا میں ہوتا ہے جب اس کی خوشامد ہو رہی ہوتی ہے۔ اسے اپنے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ جب اسے ہوش آتا ہے تب تک خوشامدی اس کو استعمال کر چکے ہوتے ہیں’’۔ایوب خان نے نوجوان ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی کابینہ میں وزیر بنایا، بھٹو ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے جو ایک کھلی خوشامد تھی۔
بعد میں یہ ہی ڈیڈی کہنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کو اقتدار سے باہر نکالا۔ خود بھٹو کی کابینہ میں بہت سارئے خوشامدی موجود تھے جو خوشامدی نہیں تھے وہ جلدہی پیپلز پارٹی چھوڑگئے، جن میں دوسروں کے علاوہ معراج محمد خان، حنیف رامے اور مختار رانا سرفہرست تھے لیکن بھٹو کو خوشامدیوں نے گھیرا ہوا تھا جس میں سب سے بڑئےخوشامدی بھٹو کابینہ کے وزیر اطلاعات مولانا کوثر نیازی تھے۔ مولانا کوثر نیازی نے ذوالفقار علی بھٹو پر ایک تعریفی و توصیفی کتاب لکھی جس کا عنوان ‘‘دیدہ ور’’ تھا۔ جنرل ضیاءالحق کو بھٹو نے تین سینیرجنرلوں پر فوقیت دی اور فوج کا سربراہ بنایا۔
جنرل ضیاءجو ایک خوشامدی انسان تھا بھٹو کے سامنے بہت تابعدار بنارہتا تھا، وہ بھٹو کی ہر بات پر ‘یس سر’ کہا کرتا تھا ۔ جنرل ضیاءالحق جب بھٹو سے ملنے کےلیے ان کے کمرئے میں جاتا تو اپنا سگریٹ اور لائٹر باہر سیکریٹری کے پاس رکھ کر جاتا تھا۔ چار اپریل 1979 کو قوم نے اس ‘دیدہ ور’ کا انجام دیکھا جب جنرل ضیاءالحق نے اپنی جان بچانے کےلیےاسے تختہ دار پر لٹکا یا تو ‘دیدہ ور’ کا مصنف کوثر نیازی جنرل ضیاءالحق سے مل چکا تھا۔
MQM
ایم کیو ایم کے ان نعروں سے کون واقف نہیں کہ ‘قائد کا جو غدار ہے، موت کا حقدارہے’، یا ‘ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے’ کل تک یہ نعرئے لگانے والوں میں گورنر سندھ عشرت العباد، سابق ناظم کراچی مصطفی کمال، ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد اورایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار شامل تھے اور الطاف حسین بھی اپنی خوشامد پر خوش تھے لیکن آج یہ سب الطاف حسین کو کھلے عام ملک کا غدار اور را کا ایجنٹ کہہ رہے ہیں، خوشامد پسند الطاف حسین شاید اب بھی ہوش میں نہیں آئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ بھی خوشامدیوں میں گھیرئے ہوئے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ انکے بہت سے سینیراورسنجیدہ ساتھی انکو چھوڑ چکے ہیں۔ گذشتہ سال سوشل میڈیا پر ان کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ ان میں اور بانی پاکستان میں دس چیزیں مشترک ہیں لیکن سوشل میڈیا پر اس کی بھرپور مخالفت کی گئی۔
آجکل ان کے ایک چاہنے والے ان کو ‘چودھری رحمت علی’ ثابت کررہے ہیں۔ نواز شریف کے خوشامدی ان کے دوسرئے دور میں انکو قائد اعظم ثانی کہنے لگے تھےمگر جب فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف نے ان کو دو مرتبہ ملک بدرکیا تو ان کے سارئے خوشامدی دودھ پینے والے مجنوں ثابت ہوئے۔ نواز شریف کے اس تیسرئے دور میں انکی کابینہ کا ہر ممبر ان کا ہمدرد کم خوشامدی زیادہ لگتا ہے، کابینہ سے باہر بھی انکی پارٹی کے کافی لوگ انکے خوشامدی ہیں، اس کے علاوہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کےسربراہ محمود خان اچکزئی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اپنے اپنے فاہدے کےلیے ان کے خوشامدی بنے رہتے ہیں۔
الیکٹرنک اور پرنٹ میڈیا میں بھی نواز شریف کے لاتعداد خوشامدی موجود ہیں جس میں روزنامہ جنگ کا صالح ظافر سب سے آگےہے۔ صالح ظافر کو صحافی کہنا صحافی پیشے کی توہین ہے، اس کی لاثانی خوشامد کی وجہ سے نواز شریف کا پورا خاندان جو پہلے ہی کرپشن کی وجہ سے بدنام ہے مزید بدنام ہورہا ہے۔صالح ظافرخاصکر نواز شریف اور مریم نواز کی وہ وہ تعریفیں لکھتا ہے جن کا نواز شریف اور مریم نواز کو بھی علم نہیں ہوتا صالح ظافرنے 1999 میں جب نواز شریف کو اٹک جیل منتقل کیا تھا تو نواز شریف اور شہباز شریف پراپنی ایک رپورٹ میں بہت ہی شرمناک الزامات لگائے تھے۔ آج نواز شریف صالح ظافرکے بغیرملکی یا غیر ملکی دورئے پر نہیں جاتے کیونکہ نواز شریف اور انکا پورا خاندان خوشامد کے نشے کا عادی ہے، جبکہ خوشامدیوں کی سوچ ہوتی ہے کہ ‘آو خوشامد کریں اور فائدہ اٹھایں’۔