اتنی ہمت دینے والا کون ؟

NADRA Office Guard

NADRA Office Guard

تحریر: ڈاکٹر ایم ایچ بابر
نادرا آفس لیاقت آباد کراچی کا سیکیورٹی گارڈ یا ہلاکو خان میری سمجھ میں یہ بات ابھی تک نہیں آرہی کہ ایک گارڈ کی اتنی ہمت کیسے بڑھ گئی جو ایک خاتون پہ ہاتھ اٹھانے کی جرات یا جسارت کبھی نہ کرتا اگر اسے کوئی سپورٹ نہ ہوتی جیسا کہ سب کے علم میں یہ بات ہے کہ پورے پاکستان کے نادرا دفاتر میں بے بہا رش ہوتا ہے لاکھوں مردوزن صبح سے شام تک قطار در قطار شناختی کارڈ کے حصول کے لئے خوار ہوتے ہیں مگر ایسا پہلی مرتبہ چشم فلک نے دیکھا ہے کہ ایک حوا جائی پر آدم کا نام نہاد بیٹا ماہ محرم میں رسم شمر نبھاتا ہوا پایا گیا۔

بات صرف K21 ٹی وی کی اینکر پرسن صائمہ کنول کی نہیں کہ اس کے ساتھ یہ ناروا سلوک کیوں کیا گیا بات ہے ایک مستور کہ منہ پہ تمانچہ مارنے کی ۔صائمہ کنول تو میڈیا کی اینکر ہونے کی وجہ سے فوری طور پر پورے ملک میں زیر بحث آگئیں مگر ان خواتین کی بات کسی نے کیوں نہیں کی جن کو روزانہ کی بنیادوں پر ایسے شمر صفت لوگ ذلیل کرتے ہیں ان کو جانوروں کی طرح دھکے مارے جاتے ہیں ۔ان کو جھڑکیاں دی جاتی ہیں۔فوری طور پر اس گارڈپر تھانہ گلبہار میں مقدمہ کا اندراج بھی ہو گیا وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی فوری ایکشن لیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی حرکت کبھی برداشت نہیں کی جائے گی ایک صحافی ہونے کے ناطے مجھے خوشی ہوئی کہ ایسے لوگوں کے خلاف ایکشن لیا گیا اور صائمہ کنول کے ساتھ ناروا سلوک کرنے والے خلاف مقدمے کا اندراج ایک خوش آئند بات ہے اور میں مشکور ہوں صائمہ کنول کا جنہوں نے ایسے لوگوں کو بے نقاب کرنے کی سعی کی ہے ۔خود پر ظلم سہہ کے پاکستان بھر کے لوگوں کو دکھا دیا ہے کہ جو لوگ میڈیا والوں پر تشدد کرنے سے نہیں چوکتے وہ عام خواتین کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہوں گے ؟ جیسا کہ صائمہ کنول نے بتایا کہ پہلے وہ گارڈ بڑے سکون سے بات کر رہا تھا پھر وہ اندر گیا اور ناجانے کس کے ایماء پر اس نے دست درازی کی یہاں ایک بات غور طلب ہے کہ مقدمہ سیکیورٹی گارڈ پر تو درج کر لیا گیا ہے مگ اس کے گارڈ فادر کو کیوں چھوڑ دیا گیا جو ایسے احکام جاری کرتا ہے اندر بیٹھے ہی خواتین کی بے حرمتی کرنے کے یزیدی حکم جاری کر رہا ہے ایسے عناصر کے خلاف بھی کچھ ہونا چاہیئے یا نہیں ؟۔یا پھر وہ با اثر ہونے کی وجہ سے استثنا کا حق رکھتے ہیں ان افسران کو قانون کی گرفت میں کون لائے گا ؟۔

Saima Kanwal

Saima Kanwal

صائمہ کنول تو ایک مثال ہے جسے دنیا نے دیکھا مگر ان خواتین کو کسی نے نہیں دیکھا جو روزانہ ایسے مظالم کا نشانہ بن رہی ہیں جن کو دفاتر میں یہ ملازمین ذلیل کرتے ہیں تو گھر پہنچنے پر گھر والے طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ کہاں گزار کے آرہی ہو سارا دن کیا حوا کی ان بیٹیوں کے مقدر میں رونے کے سوا اور کچھ نہیں ؟ میں نے خود عملی طور پر اس چیز کا مشاہدہ کیا ہے کہ نادرہ کے دفاتر میں خواتین کو کس اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بے چاری صبح سے آکر لائن میں لگ جاتی ہیں اور اپنی باری کے انتظار میں جو انکی حالت ہوتی ہے یہ وہی جانتی ہیں ۔قطار میں کھڑی خواتین کھڑی ہی رہ جاتی ہیں اور با اثر لوگ اور سیاسی سفارشی لوگ بڑے اطمینان سے اندر جاتے ہیں وہیں ان کا ٹوکن بن جاتا ہے اور سارا کام مکمل کر کے بڑے سکون سے گھروں کو چلتے بنتے ہیں ۔ کسی بیمار اور بزرگ کو بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا اور اسے یہی ہدایات سننے کو ملتی ہیں کہ قطار میں لگے رہنے سے ہی ٹوکن ملے گا ۔ بالخصوص گرمیوں میں تو حالت اس سے بھی تکلیف دہ ہوتی ہے کئی لوگ گرمی کی تاب نا لاتے ہوئے اور دھکم پیل کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتے ہیں۔

اس نظام کو کلی طور پر درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور لیاقت آباد والے واقعے میں ایک اور حیران کن بات یہ تھی جس کام کرنے کی مجھے مطلق سمجھ نہیں آئی وہ یہ کہ صائمہ کنول کو تھپڑ مارنے کے بعد سیکیورٹی گارڈ نے ہوائی فائرنگ کیوں کی کس پر وہ اپنی بہادری کی دھاک بٹھانا چاہتا تھا یا پھر عوام کو یہ پیغام دینا چاہتا ہو گا کہ میڈیا والی کو صرف تھپڑ مارا ہے اگر عوام میں سے کسی نے حکم عدولی کی کوشش کی تو گولی بھی مار دوں گا ۔ اور اتنی ہمت ایک سیکیورٹی گارڈ کی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک اس کی پشت پہ ایک طاقتور ہاتھ نہ ہو ۔رات بھر مختلف ٹی وی چینلز پر یہ بات زیر بحث رہی کہ ایک میڈیا ورکر کے ساتھ ایسا سلوک زیب نہیں دیتا ایک طرف ہم میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون گردانتے ہیں تو دوسری طرف اس کی تذلیل کرنا بھی فرض عین سمجھتے ہیں بات ہو رہی تھی کہ وہ گارڈ فرنٹئر کور کا اہلکار تھا یا فرنٹئیر کانسٹیبلری کا تو بات کھلی کہ وہ فرٹئیر کانسٹیبلری کا کانسٹیبل تھا بات پھر وہی ہے کہ وہ عام سویلئین گارڈ ہو یا فرنٹئیر کانٹیبلری کا جوان اس سے سرزد ہونے والی حرکت ناقابل برداشت ہے ۔مگر سزا کا مستحق وہ اکیلا نہیں بلکہ اس کو آرڈر دینے والا بھی اتنا ہی قابل تعزیر ہے اسے بھی سزا دینا حکومت وقت کی اولین ذمہ داری میں شامل ہے۔

Case

Case

رات تو یہاں تک سننے میں آرہا تھا کہ دونوں فریقین ایک دوسرے پر اندراج مقدمہ کے لیئے سرگرداں ہیں ۔میڈیا ورکر کے ساتھ بد سلوکی کا بھی یہ کوئی پہلا واقعہ نہپیں اس سے پیشتر بھی عوام کی خدمت کا صلہ بہت سے صحافیوں کو تذلیل کی صورت میں مل چکا ہے ۔صائمہ کنول یہی پوچھنا چاہ رہی تھیں نہ کہ مستورات کے ساتھ ناروا سلوک کیوں کیا جاتا ہے اور اس اہلکار نے اپنی مردانگی دکھا دی ایک خاتون پر ہاتھ اٹھا کر ۔میں بار دیگر حکومت سندھ ، اور وفاقی وزارت داخلہ سے یہ درخواست کروں گا کہ اس واقعہ کی مکمل اور شفاف چھان بین کر کے ایسے تمام لوگوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کریں تاکہ کوئی بھی شخص ایسی حرکت کرنے سے پہلے سو بار سوچے کہ کسی خاتون پر ہاتھ اٹھانا کتنا سنگین جرم ہے اور اس کی سزا کتنی سخت ہے ۔پاکستان کی ہر بیٹی صائمہ کنول ہے اور اس کے تحفظ کی ذمہ داری حکمرانوںپر عائد ہوتی ہے کیوں کہ اگر دھرتی گھر ہے تو اس پر سربراہی کی مسند پر رونق افروز حکمران ان مائووں بہنوں کے تحفظ کے ضامن۔ ایک صائمہ کنول کو مارے گئے تمانچے سے پوری حکومت حرکت میں آجائے اور لاکھوں صائمائوں کی یہاں تذلیل ہوتی رہے مگر ایکشن کوئی نہ لے کیا یہ مبنی بر انصاف ہو گا ۔ یہپاں نادرا آفسز میں ہی نہیں اور بہت سارے ڈیپارٹمنٹس میں حوا کی جائیاں آدم کے بیٹوں کے ہاتھوں تحقیر کا نشانہ بن رہی ہیں مگر ہمیں اپنی سیاست بچانے اور سیاست چمکانے کے علاوہ کچھ سجھائی نہیں دے رہا ۔ آخر کب ہم اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح پہچانیں گے َ ہم کب اس دھرتی کی مائووں بہنوں بیٹیوں کو احساس تحفظ فراہم کر کے ثابت کریں گے کہ قوم کی ہر بیٹی مریم نواز ،اور بختاور بھٹو ہے ہر بیٹی حاکم وقت کی بیٹی ہے ؟۔

اور میں مشکور ہوں صائمہ کنول کا جس نے خود پر تشدد سہہ کر قوم کو ہی نہیں بلکہ دنیا کو دکھا دیا کہ ہمارے ہاں مستیورات کو کتنی عزت دی جا رہی ہے ایک بار پھر گزارش کروں گا کہ قوم کی ہر بیٹی پر کسی بھی قسم کا تشدد خواہ وہ جسمانی ہو ، یا جنسی حکمرانوں سے لیکر ساری قوم تک جب تک یہ نہیں سمجھے گی کہ کہ دھرتی پر ہونے والے کسی بھی ایسے واقعے میں جہاں کسی ماں بہن یا بیٹی پر ظلم ہو رہا ہے وہ میری اپنی بیٹی پر ہوا ہے اور غیرت کا تقاضہ ہے کہ ایسے جرم کی بیخ کنی ہم سب کا قومی اور ملی فریضہ ہے یقین جانیں جب دھرتی کے ہر باشندے کی سوچ یہ ہو جائے گی تو ظلم کہیں نام کو بھی نہیں ملے گا۔

MS-H-Babar

MS-H-Babar

تحریر: ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mob;03344954919
mail; mhbabar4@gmail.com