تحریر: محمد ارشد قریشی ہم اکثر ضمانت قبل از گرفتاری یا ایوارڈ بعد از مرگ کے الفاظ سنتے ہیں، لیکن رہائی بعد از پھانسی کا لفظ شائید کئی قارئین کے لیئے نہ صرف نیا ہو بلکہ کسی اچھنبے سے کم نہ ہو کہ بھلا جس انسان کو پھانسی ہوگئی ہو اسے زندگی کے تمام مسائل سے تو رہائی مل سکتی ہے مگر کسی قید سے آزادی ممکن نہیں ، مگر یہ حقیقت ہے کہ اسی ملک اسی معاشرے میں ایک سال پہلے پھانسی کی سزا پانے اور منوں مٹی تلے دفن دو بھائیوں کو عدالت عالیہ نے ناکافی ثبوت اور گواہوں کے بیانات میں پائے جانے والے تضادکی روشنی میں بری کردیا۔
دو بھائیوں پر الزام تھا کہ انھوں نے دیگر ملزمان کے ساتھ مل کر 2 فروری 2002ء کو تھانہ صدر صادق آباد ضلع رحیم یارخان کی حدود میں واقع گاؤں رانجے میں تین لوگوں کو قتل کیا تھا۔ٹرائل کور ٹ نے نامزد ملزمان میں سے چھ کو بری کر دیا تھا جبکہ ایک کو دوبار عمر قید اور دو بھائیوں تین تین بار سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا، لاہور ہائیکورٹ بہاولپور بینچ نے اس فیصلے کو بر قرار رکھا۔ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل پر سپریم کورٹ نے 10 جون 2010ء کو دو افراد کے قتل کی حد تک سزائے موت کا فیصلہ بر قرار رکھا جبکہ ایک قتل کے معاملے پراپیل باقاعدہ سماعت کیلیے منظور کر کے مزید سانعت ملتوی کردی۔
Supreme Court
سپریم کورٹ نے فیصلے کی نقل ہائی کورٹ، وزارت داخلہ اور محکمہ داخلہ پنجاب کو ارسال کردی تھی۔ سپریم کورٹ کیفل بینچ نے 6 اکتوبرکو جب کیس کی سماعت کی تو عدالت نے نشاندہی کی کہ گواہ نمبر 7 موقع کا گواہ ہے لیکن جرح میں کہہ رہا ہے کہ جب وہ پہنچے تو دو افراد قتل ہوچکے تھے، عدالت نے سوال اٹھایا جن ثبوتوںکی بنیاد پر6 ملزمان بری ہوئے ان ثبوتوں پر2افراد کو سزائے موت کیسے دی جا سکتی ہے۔سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیکرعینی گواہ کے بیان میں موجود تضادکی بنیاد پر سزائے موت کے2ملزم بھائیوں کو بری تو کر دیا لیکن دونوں بھائیوں کو ایک سال پہلے ڈسٹرکٹ جیل بہاولپور میں پھانسی دی جاچکی ہے۔
نہ جانے اس طرح کے کتنے ہی واقعات ہیں جن میں گناہ گار آج بھی آزاد ہیں اور بے گناہ ابدی نیند سو چکے، پاک فوج کے ضرب عضب آپریشن میں بنائی جانے والی ملٹری کورٹ سے پھانسی کی سزا کے خلاف سپریم کورٹ نے سزا پر عملدرآمد روکنے کو حکم جاری کیا تھا تو معزز جج صاحب نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ اتنی جلدی بغیر تفصیلی جرح کے پھانسی دے دیں اور بعد میں بے گناہی کے واضح ثبوت آگئے تو یہ خون نہ حق کس کے گلے پر آئے گا۔اب یہ دیکھنا ہوگا کہ پھانسی کی سزا پانے کے ایک سال بعد سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے فیصلے کے نتیجے میں دونوں بھائیوں کی رہائی کے حکم کے بعد دونوں بھائیوں کا خون ناحق کس کے گلے آتا ہے کس کو سزا ملتی ہے کس کو قانون کے دائرے میں لایا جاتا ہے۔
Zulfikar Ali Bhutto
ہاں اتنا ضرور ہے جو اب تک پاکستان کے منتخب وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کو غلط قرار دیتے ہیں ان کی بات کو اس فیصلے کے بعد کافی تقویت ملے گی اور یہ بھی وقت ہی بتائے گا کہ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کی اس درخواست پر کوئی سنوائی ہوتی ہے کہ نہین جس میں بارہا کہا گیا کہ ذولفقار علی بھٹو کے کیس کو ری اوپن کیا جائے۔
غلطی سے مبراء کو ئی شخص نہیں لیکن اتنی سنگین نوعیت کی غلطیاں نظر انداز کرنا خود ایک بہت بڑی غلطی ہے یہ زیادہ دور کی بات نہیں ابھی کچھ عرصہ ہی گذرا ہے کہ ایک اعلی عہدے پر فائز ایک پولیس افسر نے کراچی کی ایک سیایسی تنظیم کے تین کارکنان کو گرفتار کرکے پریس کانفرنس میں ان سے برآمد اسلحہ دیکھایا اور تحقیقات سے ان کا تعلق را سے بتایا ان کا کیس بھی عدالت میں چلتا رہا اور انہیں عدالت نے اس بنیاد پر رہا کردیا کہ ملزمان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کیئے جاسکے جب کہ ثبوت تو میڈیا پر دیکھائے گئے تھے تو یہاں کس کی غلطی ہوئی، ایسا ہی ایک فیصلہ ایک نوجوان کا آیا تھا جس کی جوانی کے تئیس سال جیل میں گذرے اور جوانی ڈھل جانے کے بعد بے گناہی ثابت ہونے پر بری کیا گیا، کیا کسی کے خلاف اگر کیس غلط ثابت ہوجائے تو صرف ملزم کی رہائی کافی ہے یا غلط کیس بنانے والوں کے خلاف بھی قانونی کاروائی ضروری ہے ۔