طورخم (جیوڈیسک) مفرور افغان طالبان رہنمائوں پر زور بار میں شدت آتی جا رہی ہے کہ افغان امن مذاکرات میں شمولیت سے انکار کی صورت میں اپنے اہل خانہ اور کاروبار سمیت پاکستان سے چلے جائیں۔
ایک اعلیٰ پاکستانی اہل کار جن کا افغان پالیسی سے متعلق معاملوں سے براہِ راست تعلق ہے، کہا ہے کہ ”اُن (طالبان) پر یہ زور بار ڈالا جا رہا ہے، جب کہ اِن میں سے چند پہلے ہی سے جا چکے ہیں، یا پھر ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں”۔
وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، چونکہ کُھلے عام حکومت نے اِس ‘کریک ڈائون’ کی بات نہیں کی، جو اُس پالیسی کا حصہ ہے جِس کے تحت تقریباً 30 لاکھ کے قریب درج اور غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی پاکستان سے فوری انخلا کے لیے کوشش کی جار رہی ہے۔
بین الاقوامی ساتھیوں، خصوصی طور پر امریکہ کی جانب سے، پاکستان پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ طالبان اور دیگر گروپوں کو رہنے کی اجازت سے انکار کیا جائے، جو افغانستان میں پُرتشدد بغاوت میں ملوث ہیں۔
پاکستان اِن الزامات کی تردید کرتا ہے کہ اُس کی خفیہ ایجنسی پوشیدہ طور پر طالبان اور اُس کے اتحادی، حقانی نیٹ ورک کی حمایت کرتی ہے، جس سے اُنھیں افغانوں سے لڑنے میں تقویت ملتی ہے اور امریکی قیادت والی بین الاقوامی لڑاکا افواج کے انخلا کے بعد باغیوں کو پر تولنے میں مدد ملی ہے۔
پُرتشدد کارروائی میں اضافے کے نتیجے میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان باہمی تعلقات میں بہتری لانے کی کوششوں کو دھچکا لگتا ہے۔
افغان صدر اشرف غنی نے بھگوڑے طالبان رہنمائوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا پاکستان پر بارہا الزام لگایا ہے۔ ادھر، پاکستان الزام لگاتا ہے کہ افغان انٹیلی جنس کے کرتا دھرتا روپوش طالبان کو پناہ اور اعانت فراہم کر رہے ہیں، جو پاکستان مخالف طالبان سے وابستہ ہیں۔
اس ماہ کے اوائل میں، پاکستانی حکام نے بلوچستان کے دارالحکومت، کوئٹہ کے گرد و نواح کے علاقوں سے متعدد کلیدی طالبان رہنمائوں کو گرفتار کیا۔ گرفتار کیے جانے والوں میں احمداللہ مطیع، جنھیں ملا نانائی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے؛ سلیمان آغا اور ملا صمد ثانی شامل ہیں۔
پاکستانی اور باغیوں سے متعلق اہل کاروں کے مطابق، بغاوت کی کارروائیوں میں، تینوں کلیدی طور پر ملوث رہے ہیں اور ان کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب اُنھوں نے افغان حکومت کے ساتھ امن اور مفاہمتی مذاکرات کی درخواستوں پر عمل کرنے سے انکار کیا۔ حکام نے مہاجر بچوں کی تعلیم سے وابستہ چند مدارس پر بھی چھاپے مارے اور اُنھیں بند کر دیا ہے، جِن پر شبہ ہے کہ وہ طالبان باغیوں کو پناہ دیتے ہیں۔
سخت کارروائی کے نتیجے میں طالبان مجبور ہوئے ہیں کہ وہ قطر میں قائم اپنے سیاسی دفتر سے اپنا ایک اعلیٰ سطحی وفد اسلام آباد بھیجیں، تاکہ پاکستان کے ساتھ یہ معاملا اٹھایا جاسکے۔
طالبان ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ طالبان وفد کے ارکان اِس بات کے خواہاں ہیں کہ وہ افغان مہاجرین سے روا رکھے گئے طریقہ کار پر اپنی تشویش کا اظہار کر سکیں، جس میں اُن کا زبردستی انخلا اور پاکستان سے ملک بدری کے معاملات شامل ہیں۔
تاہم، انھوں نے اِن رپورٹوں کو” گمراہ کن” قرار ریا جن میں کہا گیا تھا کہ طالبان سیاسی نمائندے اس لیے پاکستان آئے ہیں کہ وہ قطر میں افغان اہل کاروں کے ساتھ باغیوں کی جانب سے ہونے والی حالئی خفیہ ملاقاتوں کے بارے میں بریفنگ دے سکیں۔ انھوں نے کہا کہ ایسی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے حکام نے طالبان کے دورے کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
تاہم، پاکستانی سکیورٹی پر مامور ایک اہل کار، جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے، ملک میں طالبان کا وفد موجود ہے، یہ بات باور کراتے ہوئے کہ وہ بغیر کسی دعوت کے اپنے طور پر ملک میں آئے ہیں افغانستان نے اس دورے پر اعتراض کرتے ہوئے، اس ضمن میں اقوام متحدہ کی تعزیرات کا حوالہ دیا ہے جن میں طالبان رہنمائوں پر غیر ملکی سفر پر بندش عائد ہے۔
چند افغان اہل کار اور سیاست داں اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستانی حکام صرف اُنہی طالبان رہنمائوں کو گرفتار یا اقدام کرتے ہیں جو پاکستانی اثر و رسوخ کے بغیر، افغانستان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔
صوبائی حکومت کے ترجمان، انوار الحق نے کہا ہے کہ ”الزام ہے کہ ہم صوبہ بلوچستان میں طالبان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ اور اگر آپ کارروائی کرتے ہیں اور وہاں موجود چند افراد کو پکڑا جاتا ہے، جیسا کہ موجودہ صورت حال میں ہے، تو پھر ہم پر الزام لگتا ہے کہ ہم امن عمل کو سبوتاژ کر رہے ہیں”۔
اُنھوں نے اِس دعوے کو بھی مسترد کیا کہ طالبان باغی بلوچستان کا استعمال کر رہے ہیں اور یہ کہ اُنھیں افغانستان میں حملوں کی تربیت اور رقوم فراہم کی جاتی ہیں۔
پاکستانی حکام اِس بات کی جانب دھیان مبذول کراتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ تقریباً 2600 کلومیٹر طویل سنگلاخ سرحد کے دونوں جانب داخل ہونے کو روکنا بہت بڑا چیلنج ہے۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ سرحد کو محفوظ بنانے کا کام جاری ہے۔ لیکن، ملک ابھی اِس سطح پر نہیں پہنچا کہ آسانی کے ساتھ مشتبہ نقل و حمل کا پتا لگایا جا سکے۔
تاہم، درپیش باہمی تنائو کے باوجود، افغانستان کے کچھ سیاستداں، جیسا کہ قانون ساز، عالے ارشاد یہ رائے رکھتی ہیں کہ افغان تنازع کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان سے مل کر کام کیا جائے اور اعتماد سازی کی راہ ہموار کی جائے۔ اُنھوں نے پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے مطالبوں کی تائید کی کہ یکساں تشویش کے امور پر مستقل مکالمہ ضروری ہے، ناکہ ذرائع ابلاغ اور روایتی بیانیہ کی مدد سے سرکاری پالیسی پر عمل درآمد کی کوشش کی جائے۔