تحریر : قادر خان افغان گذشتہ دنوں کراچی کے ایک ہوٹل میں منعقد ہونے والے سمینار میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے حوالے سے آگاہی پر ایک سمینارر میں شریک ہوا۔سمینار میں خواتین کے حقوق اور ان کے مسائل پر خوب تقاریر کیں گئیں ، ایک معروف خاتون جو ٹی وی اینکر ہونے کے ساتھ ساتھ آئی بی انسٹی ٹیوٹ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بھی ہیں ، انھوں نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ان کے نزدیک تمام تر خرابیوں کی جڑ مرد حضرات میں پائی جاتی ہے ، اگر کوئی خاتون جینز پہن کر نکلتی ہے یا سولہ سنگھار کرکے نکلتی ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے ، مردوں کو کس نے اجازت دے دی کہ وہ ان گھورا کریں ، اگر وہ بال کھولے گھوم رہی ہے ، تو مردوں کو کس نے کہا کہ وہ ان کو دیکھیں ، آپ مرد حضرات بھی تو روز ، شیو کرکے نکلتے ہیں ، مت کیا کریں شیو ، دڑاھی رکھ لیں ۔ مجھے اس بات کی سمجھ میں نہیں آئی کہ خواتین کو جنسی ہراساں ہونے میں مرد کاقصور زیادہ ہے یا عورت۔ کافی تقاریر ہوئیں ، کچھ تفصیلات بھی شیئر کیں ، کہ خواتین کو کتنا جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔اینکر پرسن خود اپنے متعلق کہتی ہیں کہ مجھ سے بھی لوگ یہ کہتے ہیں کہ کم عمر ی میں جو اتنی ترقی آپ نے پائی ہے تو اس کی وجہ آپ کی قابلیت نہیں ، خوبصورتی ہے۔
میں تو اس بات پر یقین رکھتا ہے حسن زن سے ہے کائنات میں رنگ ، ماں ہو اس کے نور سے ، بہن ہو تو اس کی شفقت سے ، بیوی ہو تو اس کے ایثار سے ، اور جو جو بھی رشتے ہیں ، ان میں قدرت نے اخلاص پیار و محبت کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔سمینار میںیہ بات نہیں بتائی گئی کہ ہماری معاشرتی اقدار کیا ہیں ، ہم کس مذہب کے پیروکار ہیں ، اور ہمارا دین ہمیں کیا حکم دیتا ہے ؟ ۔اس دوران ایک خاتون اینکر کی جانب سے ایف سی اہلکار کے ساتھ متنازعہ واقعہ بھی رونما ہوچکا تھا ، اس سے پہلے بھارتی وزیر شمشا سوراج جب پاکستان کے دورے پر آئیں تھی اور پریس کانفرنس کے بعد جانے لگی تو ایک معروف بزرگ صحافی نے ایک سوال پوچھا ، جس کا انھوں نے جواب نہیں دیا ، اس صحافی نے دوبارہ پوچھا اور یہاں تک کہ ان کی ساڑھی پکڑ لی ، جس پر سخت تنائو کی کیفیت پیدا ہوئی اور بالاآخر پاکستان کو باضابطہ معافی مانگنی پڑی۔ بات یہ نہیں ہے کہ آپ یہ کہو کہ کسی کو کیا حق حاصل ہے یا کیا حق حاصل نہیں ہے۔
بات تہذیب و اقدار کی ہے ۔ آپ کو اگر اسلامی تہذیب یہ سکھاتی ہے کہ اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے سلام کہا کرو ، تو اس میں اللہ تعالی کی حکمت پوشیدہ ہے ، کہ گھر تو آپ کا اپنا ہی ہے ، لیکن پھر بھی گھر میں خواتین کس حال میں ہوں ، وہ ایک سلام معاشرتی بلندی تک لے جاتا ہے ، قرآن نے واضح کہا کہ خواتین پر زیب و آرائش حرام نہیں ہے ، لیکن یہاں یہ بھی حکم دیا کہ ایسا پردہ کرو ، کہ شریف زادیاں نظر آئو ، بلا شبہ قرآن کریم نے سب سے پہلے مردوں کو تاکید کی کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور حرمت کا خیال کریں ، اس کے بعد عورت کو کہا گیا ۔ قرآن کریم نے خواتین کے حقوق بڑے واضح انداز میں فرمائے کہ مرد کو اس بات کا ذمے دار ٹھہرایا گیا کہ وہ اپنے کھیت کا خیال بھی کرے اور اس کا حاکم بن کر کفالت بھی کرے ۔ دنیا میں طاقت ور ترین انسان و پاکیزہ ترین انسان ، یہاں تک کہ اللہ تعالی کے برگزیدہ بندے ، انبیا و رسل ، برزگان دین ، سب ہی عورت نے جنے۔
Heaven
جنت ماں کے قدموں کے نیچے کا درجہ دیا ، لیکن ایک عورت اگر اس طرح نکلتی ہو کہ اس شہوتی دور میں میڈیا ایک تصویر کے حوالے سے کسی چائے والے کی تشہر اس طرح کردیتا ہے کہ شہوتی خواتین کو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ ایسا کیوں کر رہی ہو۔ ہم روز اپنے سامنے تماشا دیکھتے ہیں کہ جب جسم کا پردہ نہیں ہوگا تو آنکھ کا پردہ صرف مرد اس لئے کرے کیونکہ جنس مخالف ، بھڑکیلے لباس و انداز کے ساتھ بے باکی سے چلی جائے کیونکہ یہ سب کسی اور کیلئے ہے۔ کیا ہمارے معاشرے میں اس تہذیب کو پروان چڑھایا گیا ہے کہ مرد و عورت میں فرق ہے ، ہم تو یہ ہی کہتے نہیں تھکتے کہ مرد دعورت شانہ بہ شانہ چلے گی ، اکیاون فیصدی آبادی کے اس ملک میں ہم نے کس اقدار کو فروغ دیا ہے ، راقم نے نجی چینل میں چلنے والے اخلاق باختہ ڈراموں اور ان کی کہانیوں پر اعتراض کیا تو جواب یہی ملا کہ یہ بولڈ موضوع ہیں ، لیکن اس کے نتائج کیا نکلے ، کیا ہم جانتے ہیں ؟۔ پشتو فلموں میں اخلاقیات و پختون روایات کا جنازہ نکال دیا گیا ، لیکن سنسر بورڈ کو اس لئے نظر نہیں آتا کیونکہ وہ کسی قوم کی تہذیب کو روندنا چاہتے ہیں ، جب راقم نے اس پر آواز اٹھائی تو بھارتی فلموں کا جواز پیش کیا گیا کہ گھر گھر جو فحاشی چل رہی ہے ، اس کو تو دیکھو۔
بھارتی فلموں کو پاکستان میں نمائش کی اجازت کیوں دی گئی ، جبکہ قانون بھی نہیں ہے ، ٹی وی چینلز میں صرف پانچ فیصد بھارتی مواد چلانے کے بجائے پاکستانی مواد کو پانچ فیصد چلائے جانے لگا ، اس کی اجازت کس نے دی ، نابالغ اذہان میں فحاشی، فحاشی نہیں رہی بلکہ آرٹ ، فنکاری بن گئی ، پاکستانی معاشرے میں اخلاقی انحطاط اس درجے جا پہنچا کہ گانوں میں لڑکی کا نام لیکر پوچھا جانے لگا کہ کس کس نے جانا فلاں کے گھر ، لائن لگائو۔ جلسے جلوس ، سیاسی منشور کا ذریعہ ہوا کرتے تھے ، لیکن اب ڈی جے پارٹی بن گئی ہے۔ اس ماحول میں آپ اس بات کی توقع کرتے ہیں کہ تمام پابندیاں صرف مرد حضرات پر لگے ، اینکر اگر صحافی بن کر اپنا کردار ادا کرتی تو ایسے ایف سی اہلکار تھپٹر کیوں مارتا ، گھروں میں والدین اپنی بچیوں کو کام کیلئے چھوڑ آتے ہیں۔
لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ایک عام ماحول سے اپَر ماحول میں جاکر اس کے ناپختہ ذہن میں کیا اثر ہوگا ۔ موبائل فون پر رات رات بھر مرد و زن کی باتوں کے بعد کیا نتائج نکلتے ہیں؟ جنسی طور پر صرف خواتین ہی ہراساں کیوں ہوتی ہیں ؟۔یہ ایک ہمہ گیر موضوع ہے ، ہم نے ابھی اپنے معاشرے کو اس ماحول میں نہیں ڈھالا کہ وہ تہذیب و اخلاق کے معیار کو سمجھ سکے۔ کسی خاتون کے لپ اسٹک لگانے پر مجھے اعتراض کیوں ہوگا ، ہونٹ اس کے اپنے ہیں ، لیکن جب اس کا استعمال کا ثبوت کسی غیر مرد کی شرٹ پر پایا جائے گا تو اس نے اپنی ہی ذات کی ایک عورت کے حق پر ڈاکہ ڈالا۔
Wedding
جب خاتون کسی ایسے مرد سے شادی کرتی ہے جس کی پہلی بیوی موجود ہے ، تو اس کا اخلاقی فرض کہاں چلا جاتا ہے ؟ ایک عورت کا گھر برباد کرنے والی بھی تو عورت ہے۔ گھر میں ساس ، نند ، بھابی یا کسی بھی زنانی رشتے کی جانب سے اگر کسی خاتون پر ظلم ہوتا ہے تو اس کا ذمے دار بھی خود عورت ہی ہوتی ہے ۔ آپ نے خود فرمایا کہ ان کو یونی ورسٹی کی بچیاں بتاتی ہیں کہ فلاں لیکچرار نے کسی اسٹوڈنٹ سے کہا کہ کل ساڑھی پہن کر آنا ، اگر وہ اس کی فرمائش پوری نہیں کرتی تو اس پروفیسر کے خلاف کے خلاف شکایت بھی مو ثر نہیں۔ لیکن لیکچرار نے صرف اس اسٹوڈنٹ کو ہی کیوں کہا ، اس کی وجہ بھی جاننے کی کوشش کی۔مشہور محاورہ ہے کہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔ قصور وار صرف مرد نہیں عورت بھی ہوتی ہے۔
جنسی ہراساں کرنے کے واقعات سب سے زیادہ لڑکوں کے ساتھ ہوتے ہیں، بین الاقوامی رپورٹس ثابت کرتی ہیں کہ جنس مخالف ،جذبات کے اس کھیل کے اکیلی کھلاڑی نہیں ہوتی۔ تاہم ہر بات سے قطع نظر ہم اگر معاشرتی اقدار میں اسلامی و قرآنی تعلیمات اپنے بچوں کو دینا شروع کردیں کہ دوپٹہ کندھے پر رکھنے کیلئے نہیں ، بلکہ نسوانی اعضا کو چھپانے کیلئے ہیں ، جینز پہنتے وقت اگر اس بات کا خیال خود ہی رکھ لیا جائے کہ ایسے جگہ جگہ سے کاٹنا ضروری نہیں کہ جسم نظر آئے ، تو کیا یہ بہتر نہیں ہے۔
سولہ سنگھار کرکے ہزار بار نکلیں ، لیکن جس کے لئے نکلی ہیں ، اس کی امانت کو نمائش نہ بنائیں تو کیا بہتر نہیں ہے۔سیکولر نظام کی تعلیم دینے کے ساتھ اگر قرآن کریم نے جو خواتین کو حقوق اور احکامات و ہدایات دیں ہیں ، اس سے بھی اپنے بچوں ، بچیوں کو آگاہ کرادیں تو جنسی مریضوں کی کمی ہوگی۔قرآن کریم کو ذرا کھول کر تو پڑھیں ، ڈاکٹر فرائڈ کا تو خوب مطالعہ کیا جاتا ہے ، لیکن قرآن کریم کو جب اوطاق میں سجھا کر رکھ دیں تو انسانیت کہاں سے سیکھو گے؟۔