تحریر : غلام مرتضی باجوہ وطن عزیز میں ہرشہری کی زبان پراکتوبر اور نومبر کی بحث جاری ہے اورحکمران اور اپوزیشن رہنماء قومی ومقامی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے پریس کانفرنسوں کا میچ کھیلنے میں مصروف ہیں۔اگر تاریخی حوالے سے اکتوبر کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتاہے کہ پاکستانی سیاست میں اکتوبر کا مہینہ ہمیشہ سے ہنگامہ خیز رہا ہے اس مہینے میں تین بار عام انتخابات منعقد ہوئے۔ دو بار مارشل لا لگا، کئی سیاسی اتحاد بنے اور کئی ٹوٹے1951میں اکتوبر کی 15تاریخ کو لیاقت علی خان کو ایک جلسے میں شہید کر دیا گیا۔ 17تاریخ کو غلام محمد نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا اور خواجہ ناظم الدین ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ 6اکتوبر1955ء کو غلام محمد خان مستعفی ہو گئے۔ 1958ء میں اکتوبر کے مہینے میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگا دیا۔ اکتوبر 1959ء میں ایوب خان فیلڈ مارشل بن گئے۔ اکتوبر 1985میں آٹھویں ترمیم منظور کی گئی جس کے تحت صدر پاکستان کو اختیار دیا گیا کہ وہ پاکستانی پارلیمنٹ کو کسی بھی وقت تحلیل کر سکتے ہیں اکتوبر1988میں ملک میں اسلامی جمہوری اتحاد وجود میں آیا۔ 24اکتوبر1990ء کو الیکشن منعقد ہوئے1993ء میں دوبارہ انتخابات ہوئے۔ اکتوبر1999ء میں جنرل مشرف نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ 2002ء میں اکتوبر کے مہینے میں انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا گیا 18اکتوبر2007ء کو بے نظیر بھٹو جلا وطنی کاٹ کر واپس آئیں۔
عمران خان کی سیاست کو 30اکتوبر2011ء کو دوام حاصل ہوا پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اسلام آباد میں دھرنے کے لئے30اکتوبر کی تاریخ دی گئی مگر اسے2نومبر تک بڑھا دیا گیا ہے۔دوسری جانب اپوزیشن رہنماؤں کے میں عمران خان کا دعویٰ ہے کہ مجرم کو وزیراعظم نہیں مانتا، آسمان بھی گر جائے 2 نومبر کو دھرنا ہوگا،مارشل لاء نہیں لگے گا، حکومت چلی گئی تو نئے انتخابات ہوں گے، حکومت الزامات لگانے کی بجائے ہمیں پکڑے ، پر امن احتجاج ہمارا آئینی حق ہے ، ہر صورت نواز شریف کو احتساب کے لئے پیش ہونا ہو گا۔
تواس کے جواب میں حمزہ شہباز کا کہناہے کہ عمران خان کو اگر وزیر اعظم بننے کا اتنا شوق ہے تو میں ان کو اپنے پیسوں سے شیروانی سلوا دیتا ہوں،عمران خان جہاں سے گزریں گے وہاں وزیر اعظم کے نعرے لگوا دوں گا۔ ہمارے پیچھے قربانیوں کی تاریخ ہے،شہید محترمہ کے دور میں مجھے اڈیالہ جیل میں رکھا گیاتھا۔مشرف دور میں مجھے نیب دفاتر کے آگے 6،6گھنٹے بٹھایا جاتا تھا،نیب افسر نے کہا مشرف نے انکوائری کا ٹاسک دیا ہے،آپ کے خلاف ثبوت نہیں ملے۔جب میں نیب دفاتر کے آگے بیٹھا تھاتب عمران خان مشرف کے ریفرینڈم میں ساتھ دے رہے تھے۔نواز شریف نے کہا تھا کہ سرجھکا کر سپریم کورٹ میں صفائی کے لئے پیش ہوں گے ،مشرف دور میں بھی ہمارا خاندان سرخرو ہواتھا۔مشرف دور سے زیادہ کالا دور کوئی نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان توتین دن جیل میں رہنے کے بعد گھبرا گئے تھے، پہلے بھی دھرنے میں قوم کے 126دن ضائع کئے اور اب بھی 2نومبر کو کچھ نہیں ہونے والا ہے۔
Siraj ul Haq
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ اسٹیٹس کو کے خلاف جہاد اور بغاوت کا اعلان کرتے ہیں ،آمریت پسند نام نہاد جمہوریت پسندوں نے ظالم سٹیٹس مسلط کیا ،اس اسٹیٹس کو کے خلاف احتجاج نہ کرنے والے بھی ظالم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ قوم کی نظریں پاناما لیکس معاملے میں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں۔ حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ حکومتوں نے عوام کو رشوت کا تحفہ دیا ، گندے پانی کا تحفہ دیا ، غربت کا تحفہ بھی حکومتوں نے ہی دیا۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ کھلے دل سے حکومت کیساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں اور بلاول بھٹو کے دئیے گئے چار مطالبات پر حکومت بات کرے گی تو ضرور کریں گے۔
موجودہ حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت 2018ء تک چل نہ پائے گی۔ عمران خان وزیراعظم نواز شریف کے سب سے بڑے حامی ہیں کیونکہ ان کی پالیسیوں سے وہ اور بھی مضبوط ہو رہے ہیں۔ مشکل وقت میں حکومت پآں پڑتی ہے اور اچھے وقت میں گلے پر پآں رکھتی ہے۔ ایسے لکتاہے تمام کو حکمرانوں عوامی مسائل کے بجائے پامانا لیکس اور کرپشن کے الزامات کے جواب میں کروڑوں روپے پریس کانفرنسوں خرچ کرنے کا ٹاسک مل گیا ہو،لیکن اپوزیشن اور حکمرانوں کے اس کھیل میں پاکستانی قوم کو کئی حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم لوگوں کی حالت پر صحیح آبدیدہ ہونے کے بجائے کروڑوں روپے پریس کانفرنسوں پر خرچ کرنے والے ورزاء کو حکم دیں کہ وہ اپنے حلقہ کے عوام پر خرچ کریں،ماہرین ، وکلاء ، مبصرین اور شہریوں میںیہ بحث جاری ہے کہ ورنہ وزیراعظم سمیت کئی اہم شخصیت کو قوم کی نہیں اپنی حالت پر صحیح آبدیدہ ہونے پرے گا۔